کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنے والی حکومت کے دور میں کرپشن میں اضافہ

پاکستان میں گزشتہ سال 2019ء کی نسبت کرپشن چار درجے بڑھ گئی ہے، 2019ء میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس 120 تھا جو رواں سال 124 پر پہنچ چکا ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

1296

اسلام آباد: پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے مسلسل دوسرے سال ملک میں کرپشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سال 2020ء کے حوالے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) جاری کیا ہے جس میں دنیا کے 180 ممالک کے سرکاری شعبوں میں بدعنوانی کی شرح کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔

اس انڈیکس میں مختلف ممالک کو انسداد کرپشن کی کوششوں کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر زیرو سے 100 تک سکور بھی دیا جاتا ہے جس میں زیرو یا اس کے قریب ہونے کا مطلب کرپٹ ترین جبکہ 100 یا اس کے قریب ہونے کا مطلب شفاف ترین ہوتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال 2019ء کی نسبت کرپشن چار درجے بڑھ گئی ہے، 2019ء میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس 120 تھا جو رواں سال 124 پر پہنچ چکا ہے۔

انڈیکس میں رواں سال پاکستان کا سکور 32 رہا جو 2020ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی مقررہ اوسط 43 سے بھی کم ہے، اس سکور کے لحاظ سے کچھ ممالک نے معمولی بہتری دکھائی، 180 میں سے دو تہائی ممالک کا سکور 50 سے کم ہی رہا اور یہ ممالک سرکاری شعبے میں کرپشن کے انسداد کے خلاف عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔

رپورٹ کے مطابق کرپشن سے پاک اور شفاف ترین نظام حکومت کے حامل ممالک میں ڈنمارک اور نیوزی لینڈ 88 سکور کیساتھ سرفہرست رہے، فن لینڈ، سنگاپور، سویڈن اور سوئٹزرلینڈ کا سکور 85 رہا، امریکا کا سکور 67 رہا۔

جنوبی سوڈان اور صومالیہ کرپٹ ترین ممالک قرار پائے جو صرف 12 سکور حاصل کر سکے، شام 14 اور یمن اور وینزویلا 15 سکور کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک کی فہرست کا حصہ بن گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2012ء کے بعد میانمار، یونان اور ایکواڈور سمیت 26 ممالک نے اپنا سی پی آئی سکور بہتر کیا ہے جبکہ اسی عرصے میں لبنان، ہرزیگوینا، ملاوی اور بوسنیا سمیت 22 ممالک کے سکور میں تنزلی آئی ہے۔

کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہنگامی صورت حال میں شفافیت اور انسداد بدعنوانی کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے کورونا وائرس کے خلاف مساوی عالمی اقدامات اور کوششوں کو نقصان پہنچا۔

دوسری جانب کرپشن انڈیکس پر پاکستان کے سکور میں تنزلی کے حوالے سے اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کا موقع ہاتھ آ گیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے وزیراعظم عمران خان کے تمام دعوے جھوٹے ہیں، ان کے دور اقتدار میں کرپشن بڑھ رہی ہے اور عالمی انڈیکس پر پاکستان کی چار درجے تنزلی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

شیری رحمان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی ساری توجہ نیب کو استعمال کرنے اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے پر ہے تو ملک سے بدعنوانی کیوںکر ختم ہو گی، کرپشن کے حوالے سے ان کا شوروغل دنیا کو اب سمجھ آ رہا ہے، موجودہ حکومت کے دو سالوں میں ملک میں کرپشن سات درجے بڑھ چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ عطا مری نے کہا کہ ماضی میں عمران خان ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس ہوا میں لہرا کر حکومت کو گھر جانے کا کہا کرتے تھے، 2018ء تک وہ یہی کرتے رہے، لیکن ٹرانسپرنسی کی موجودہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد عمران خان کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ وزیراعظم کی مسند پر براجمان رہیں۔

انہوں نیب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب نے گزشتہ اڑھائی سالوں کے دوران وفاقی حکومت کی کرپشن پر کتنے ریفرنس دائر کیے ہیں؟

ادھر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ریٹنگ کیلئے پرانا ڈیٹا استعمال کیا گیا، انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں ورلڈ بینک کا 2017ء اور 2018ء کا ڈیٹا استعمال کیا گیا اور حالیہ رپورٹ دراصل مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار کے آخری دنوں کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here