اسلام آباد: سوئی گیس پائپ لائنز کے انفراسٹرکچر کے بغیر اہم صارفین کو گیس کی فراہمی کے لئے معاہدہ کے تحت پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ، ال قاسم گیس اور جام شورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ نے گوادر گیس پورٹ لمیٹڈ کے لئے ایک خاص مقصد کے تحت وہیکل تشکیل دی ہے جو پاکستان بھر میں مختلف صنعتی صارفین کو ری گیسی فیکیشن کے لئے ٹرکوں پر ایل این جی پہنچائے گی۔
گوادر انٹرنیشنل ٹرمینل لمیٹڈ کے ساتھ معاہدہ کے تحت گوادر گیس پورٹ لمیٹڈ پاکستان بھر میں سی این جی اسٹیشنز، ٹیکسٹائل ملز، فرٹیلائزر پلانٹس اور دیگر ایسے بڑے تجارتی اداروں اور صنعتوں کو ٹرکوں پر فلوٹنگ سٹوریج یونٹس سے ایل این جی کی ترسیل کے لئے گوادر پورٹ میں موجود برتھ تھری پر انجینئرنگ کے کام کا آغاز کرے گا۔
اس ورچوئل پائپ لائن سے گیس کی فراہمی کیلئے سوئی گیس کمپنیوں کی گیس پائپ لائنز کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس طریقہ سے کسی رکاوٹ کے بغیر چین، ترکی اور بھارت جیسے ممالک میں کامیابی سے کام کیا جا رہا ہے۔
گوادر گیس پورٹ لمیٹڈ (جی جی پی ایل) کے چیئرمین اقبال زیڈ احمد نے کہا ہے کہ پاکستان میں گیس کے شعبہ میں انقلاب لانا نجی شعبہ میں ایک اہم قدم ہے، مارکیٹ کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہوں گی، تیز اربنائزیشن، سی پیک منصوبوں اور صنعتی نمو کی وجہ سے طلب اور رسد میں گیس کا فرق دو ارب کیوبک فٹ سے بڑھنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی جی پی ایل کے ذریعے شروع کیا گیا ورچوئل پائپ لائن منصوبہ گیس کی قلت کو دور کرنے میں مددگار ہو گا اور مسابقتی ماحول کیلئے سوئی گیس کمپنیوں کی موجودہ اجارہ داری سے بچتے ہوئے گیس کے شعبہ میں تبدیلی لائے گا۔
گوادر انٹرنیشنل ٹرمینلز لمیٹڈ کے حکام نے کووڈ-19 احتیاطی اقدامات کے بعد کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، سیالکوٹ اور فیصل آباد کے دیگر اہم مراکز کو ترسیل کے لئے چین کے زیر انتظام بندرگاہ کو مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے گوادر پورٹ پر ایل این جی لانے سے متعلق معاہدہ کو سنگ میل قرار دیا ہے۔
یہ بندرگاہ پہلے ہی ایل پی جی، فرٹیلائزر، سیمنٹ، اناج سمیت سامان تجارت کی متنوع حد تک کامیابی اور محفوظ طریقے سے ہینڈلنگ کا کام انجام دے رہی ہے اور یہ 62 ارب ڈالر کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک شاہکار بن چکی ہے۔