امریکی گلوکارہ بیونسے آپ کے سنگیت میں پرفارم کریں، برطانوی گلوکار ایڈ شیران (Ed Sheeran) مہندی میں شریک ہوں، بالی وُڈ کے سپر سٹار امیتابھ بچن اور شاہ رُخ خان بارات کے شُرکاء کو کھانا پیش کریں، سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن مہمانوں کے ساتھ گُھلتی ملتی نظر آئیں، یہ سب بظاہر تو دیوانے کا خواب لگتا ہے مگر ایشیا کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی بیٹی ایشا امبانی کے لیے یہ سب حقیقت کا روپ دھار گیا جب مذکورہ بالا شخصیات نے اُن کی ترتعیش شادی میں شرکت کرکے چار چاند لگا دیئے۔
مُکیش امبانی کے اثاثوں کی مالیت اندازً 76 ارب ڈالر ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی پر 10 کروڑ ڈالر خرچ کیے، مگر وٹس ایپ پر زیر گردش ایک دلچسپ سٹوری کے مطابق یہ بھارتی تاریخ کی سستی ترین شادی اس لیے تھی کیونکہ بھارت میں اکثر والدین بچوں کی شادی کیلئے کئی برسوں تک کماتے ہیں اور پھر جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں، لیکن مُکیش امبانی نے اپنی بیٹی کی شادی پر جو 10 کروڑ ڈالر خرچ کیے وہ اُن کی صرف 20 دن کی کمائی تھی۔
پاکستان میں امبانی خاندان جیسی پر تعیش شادی کا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہاں کوئی اتنا امیر نہیں کہ وہ اس قدر شاہانہ انداز میں شادی رچا سکے، لیکن پھر بھی لاہور کے دو کاروباری خاندانوں نے اپنے بچوں کی شادی امبانی فیملی کے سے تزک و احتشام کے ساتھ کرنے کی کوشش کی، گو کہ یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھی لیکن بہرحال ایک بڑی پنجابی شادی ضرور تھی۔
جلال سنز اور ماسٹر ٹائلز ویسے تو دو مخلتف کاروباری گروپ ہیں مگر ہمارے اس مضمون میں ان دونوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اگرچہ دونوں کاروباری خاندانوں کے بچوں کی شادی میں بیونسے کی پرفارمنس اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے امیتابھ بچن اور شاہ رُخ خان تو مدعو نہیں تھے مگر پھر بھی جو انتظام کیا گیا تھا وہ پاکستانی معیار کے لحاظ سے بہت بلند تھا، استقبالیہ پر راحت فتح علی خان اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے، عاطف اسلم مہمان خصوصی تھے اور مولانا طارق جمیل نکاح خوانی کے عظیم مقصد کے لیے موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے: بیٹی کی مہنگی ترین شادی، ایف بی آر ماسٹر ٹائلز مالکان کیخلاف حرکت میں آ گیا
ایسا کہنا بالکل غیرضروری ہے کہ یہ ایک بڑی شادی تھی، شادی ہال، جو پانچ کنال پر محیط تھا، کو چھت تک خوشبو دار تازہ پھولوں سے سجایا گیا تھا، داخلی راستے پر جمناسٹ اور منہ سے آگ نکال کر کرتب دکھانے والے مہمانوں کو محظوظ کرنے کیلئے موجود تھے، وباء کے دنوں میں ماسک اور سماجی فاصلے جیسے ایس او پیز پر عملدرآمد کا تردد نہیں کیا گیا، انتظامات دیکھ کر لگتا تھا کہ اس شادی پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔
یقیناََ آپ کے ذہن میں سوالات سر اُٹھا رہے ہوں گے کہ یہ شادی کس خوش قسمت جوڑے کی تھی؟ اُن کی کہانی کیا ہے؟ دونوں کی ملاقاتیں اور عہدوپیماں کہاں ہوئے؟ کیا امیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کورونا آپ کو کچھ نہیں کہے گا؟ اگرچہ میڈیا کو اس شادی سے دور نہیں رکھا گیا پھر بھی جوڑے کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں، ماسوائے اس کے کہ دُلہن کا تعلق ماسٹر ٹائلز والوں خاندان سے تھا اور دُلہے کا جلال سنز کے خاندان سے۔
آج کل بڑی شادیاں برانڈنگ کا ذریعہ بھی ہیں، ان کے ذریعے اپنی نوابی حیثیت کا اظہار کیا جاتا ہے اور دنیا کو حیران کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر آپ خود کو امیر ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دراصل آپ خود کو ایک کامیاب شخص کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور آج کل یہی جنس بکتی ہے۔
مگر جلال سنز اور ماسٹر ٹائلز کے خاندان اس ضمن میں کچھ زیادہ ہی پُرجوش دکھائی دیے، کیونکہ جب آپ جارحانہ انداز میں خود کو امیر اور کامیاب ظاہر کر رہے ہوتے ہیں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ آپ خود کو بے جا نمودونمائش کرنے والے فرد کے طور پر بھی ظاہر کر بیٹھیں، ایسے افراد کے بارے میں آگے چل کر نو دولتیے کا تاثر بھی قائم ہو جاتا ہے۔
کچھ دونوں خاندانوں کے بارے میں۔۔۔
جلال سنز فیملی کی امارت نئی نہیں، لاہور بھر میں اُن کی 20 برانچز ہیں، جن میں سے کچھ شہر کے اہم علاقوں جیسا کہ ڈیفنس فیز فائیو اور فیصل ٹاؤن میں واقع ہیں، صرف ڈیفنس میں ہی جلال سنز کی پانچ برانچز ہیں، مگر سب سے مشہور برانچ گُلبرگ مین مارکیٹ میں ہے۔
جلال سنز کی مین مارکیٹ برانچ 1958ء میں قائم کی گئی تھی، آج یہ امراء کیلئے خریداری کا بڑا مرکز ہے، یہاں لاہور کی بڑی بڑی شخصیات گراسری کی خریداری کیلئے آتی ہیں، یہ سٹور اپنے معیار اور درآمدی مصنوعات کے لیے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ سماجی رتبے کی علامت بھی بن چکا ہے، چونکہ جلال سنز کا اب نام بن چکا ہے اس لیے چیزوں کی قیمت بھی عام مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے، یہاں سے کمایا ہوا پیسہ کاروباری کو مزید پھیلانے پر خرچ کیا جاتا ہے اور گزشتہ چند سالوں کے دوران شہر کے کم و بیش ہر پوش علاقے میں جلال سنز کی ایک برانچ نمودار ہو چکی ہے۔
خاندان کے افراد یکے بعد دیگرے اس کاروبار میں آتے گئے اور یہ وسعت اختیار کرتا چلا گیا، اگرچہ مین مارکیٹ گلبرگ برانچ کی وجہ سے ہی جلال سنز ایک برانڈ بنا مگر ان کے کاروبار کا آغاز یہاں سے بالکل نہیں ہوا تھا، بلکہ لاہور کی پرانی مارکیٹوں میں سے ایک گھمتی بازار سے کاروبار شروع کیا جو لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ اور روشنائی گیٹ کے سنگم پر ہے۔
1948ء میں محمد الف خان نے گمتی بازار میں بیکری اور اشیائے ضروریہ کے ایک چھوٹے سے سٹور کی بنیاد رکھی، کاروبار چل نکلا، دس سال بعد 1958ء میں الف خان کے صاحبزادوں جلال اے خان اور سہیل اے خان نے اندرون لاہور کی دُکان بند کی اور گلبرگ منتقل ہو گئے۔
پرانے لاہور میں اس زمانے میں بڑی بڑی حویلیوں میں رہائش پذیر امراء اور مغلوں کے کئی وارث بستےتھے، یہی امراء الف خان کی پُرانی دکان کے مستقل گاہک بھی تھے، مگر وقت بدلا اور ایک زمانے میں لاہور کے مضافات سمجھے جانے والے گُلبرگ، ماڈل ٹاؤن اور شاہ جمال جیسے علاقے دولت کا مرکز بن گئے۔
یہ شادی جلال اے خان کے پوتے (جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) اور ماسٹر ٹائلز کے مالک شیخ محمد اقبال کی بیٹی ( ان کا نام بھی نہیں بتایا گیا) کی تھی۔
ماسٹر ٹائلز کے مالکان کا تعلق گوجرانوالا سے ہے، ان کا کاروبار محض تین دہائیاں پُرانا ہے، ماسٹر ٹائلز کو شیخ اقبال نے 1982ء میں قائم کیا تھا، پنجاب کے کاروباری حلقوں میں اس کی جلال سنز جیسی تاریخی اور ثقافتی پہچان نہیں البتہ خاندانی تاریخ ضرور ہے۔
جلال سنز کی ویب سائٹ پر محض دو سطری تعارف دیا گیا ہے، وہیں ماسٹر ٹائلز کی ویب سائٹ پر اس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور جنرل مینیجر کی جانب سے طویل پیغام اور کمپنی کی تفصیلی تاریخ دی گئی ہے۔
پاکستانی کاروباروں میں اہمیت کا حصول بہت معنی رکھتا ہے، آپ اسے سیٹھ کلچر کہیں یا کچھ اور لیکن اگرآپ کا کاروبار اچھا چل رہا ہے تو آپ کی خواہش ہوگی کہ آپ کے ساتھ شاہی انداز اپنایا جائے، یہی وہ خواہش ہے جو شیخ اقبال جیسے لوگوں، جنہوں نے ایک کمپنی کو کھڑا کرنے میں پوری زندگی لگائی ہوتی ہے، کو بچوں کی شادی پر اسراف کی حد تک پیشہ خرچ کرنے پر اکساتی ہے۔
یہی وہ سوچ ہے جو انہیں اپنے ہی جیسے بااثر خاندان، جیسا کہ جلال سنز، کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ شادی کے ذریعے کاروباری اتحاد بنانے کا پُرانا طریقہ اب بھی اہمیت رکھتا ہے، اگر اوبر اور کریم پاکستان میں دو کاروباری خاندانوں کی ملکیت ہوتے اور اُن کے مالکان اپنے بچوں کی شادیاں آپس میں کرنے کا فیصلہ کرتے تو یہ کاروباری لحاظ سے ایک دلچسپ فیصلہ ہوتا، اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہوتی کہ مسابقتی کمیشن اس حوالے سے کیا کرتا۔
لیکن جب ایک ٹائل بنانے کے کاروبار سے وابستہ خاندان کے بچے کی شادی سپرسٹور کی چین کے مالک خاندان میں ہوتی ہے تو یہ دولت کی دولت سے شادی کے مترادف ہے۔ متوسط طبقے میں ایک پُرانی کہاوت ہے کہ دیسی شادی دُلہن اور دُلہے کی نہیں بلکہ نوکری اور جہیز کی ہوتی ہے، ماسٹر ٹائلز اور جلال سنز کی یہ شادی بھی ایسی ہی بات ہے مگر ذرا بڑے پیمانے پر اور اتنی ہی بُری۔
کچھ احوال شادی کا۔۔۔
شادی کے کارڈز کے ساتھ سونے کے ورق میں لپیٹے لڈو بھیجے گئے لیکن یہ چیز توجہ کا مرکز نہیں تھی، ناہی اس تقریب میں ہونے والے سرکس کے کرتب ، سجاوٹ، پھول، یا مشہور شخصیات کی شرکت توجہ مبذول کروا رہی تھی بلکہ جس جگہ شادی کی یہ تقریب منعقد ہو رہی تھی، اس کے داخلی راستے پر نیون لائٹس سے دُلہا اور دُلہن کے ناموں کی بجائے ہیش ٹیگ کے ساتھ یہ الفاظ درج تھے ‘جلال سنز اور ماسٹر ٹائلز کی شادی’، اس ہیش ٹیگ سے مہمانوں کو بلاشبہ یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ دونوں خاندانوں کی دولت کا برملا اظہار تھا، یعنی سوشل میڈیا کو بھر دو (اس شادی سے متعلق پوسٹوں سے)، لوگوں کو دکھا دو، لوگوں کو جاننے دو، ( دونوں خاندان کی امارت کے بارے) یہی اس ہیش ٹیگ کا مقصد تھا۔
دنیا کے دوسرے حصوں خاص کر امریکا میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا جوڑا سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کا استعمال اس لیے کرتا ہے تاکہ ان کے دوستوں کو ان کے اس یادگار دن کی تصویریں ڈھونڈنے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ ہیش ٹیگ عموماً جوڑے کے ناموں پر مشتمل ہوتا ہے، مگر لاہوری شادی میں ایسا لگ رہا تھا کہ شادی کا نہیں بلکہ دونوں کاروباروں کے انضمام کا اعلان کرنے والا ہیش ٹیگ ہے۔
اس کے بعد شادی کی تصویروں میں مختلف فنکاروں کی موجودگی، کھانے کی میز کی طوالت اور جگہ جگہ جلال سنز اور ماسٹر ٹائلز کے نام توجہ مبذول کروا رہے تھے، یہ اپنے آپ کو مبارک باد دینے جیسا رویہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: دو ارب کی شاہانہ شادی، ایف بی آر کا سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں سے بھی تحقیقات کا فیصلہ
اس شادی کے ذریعے امارت کا جو تاثر دینے کی کوشش کی گئی، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اس کی خوب تشہیر ہوئی، سماجی رابطے کے ویب سائٹس پر صارفین یہ شکایت کرتے بھی نظر آئے کہ کورونا کے آزمائشی وقت میں شادی پر صرف ہونے والی بھاری رقم کسی نیک کام پر بھی خرچ کی جا سکتی تھی، اس بڑی اور کورونا کی احتیاطی تدابیر سے عاری تقریب کے ذریعے مہلک وبا کے پھیلاؤ کے خدشے کا بھی اظہار کیا گیا، اس کے علاوہ پنجاب کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی موجودگی پر بھی تبصرے کیے گئے۔
شادی کی تصویروں پر یہ تبصرہ بھی کیا گیا کہ کسی بھی مہمان نے ماسک نہیں پہنا مگر تقریب کی انتظامیہ کے ورکرز کو ماسک پہنائے گئے ( ابھی یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ذات برادری کا نظام نہیں پایا جاتا)۔ اور بلاشبہ یہ مزاحیہ تبصرے بھی کیے گئے کہ یہ شادی کم اور دونوں کاروباروں کا انضمام زیادہ لگ رہا تھا۔
اس شادی کے حوالے سے پاکستان ٹوڈے کے زیراہتمام مزاحیہ اور طنزیہ مضامین شائع کرنے والے جریدے The Dependent نے بھی ایک مضمون شائع کیا جس کی سرخی کچھ یوں تھی ‘جلال سنز اور ماسٹر ٹائلز کے اتحاد کے بعد ویسٹیروسی کی سیاست میں بڑی تبدیلی’ صرف دی ڈی پینڈنٹ ہی اس شاہانہ شادی کی جانب متوجہ نہیں ہوا، بلکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بھی اسے نوٹ کیا اور ماسٹر ٹائلز سے شادی کے اخراجات سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں۔
یہ کہنا بلاضرورت ہے کہ اس شادی نے وہ تاثر قائم نہیں کیا جو دونوں خاندان چاہتے تھے، پاکستانی کاروباری خاندان ہمیشہ اپنی دولت کی نمائش کی خواہش رکھتے ہیں، اس دکھاوے سے اُن کی دولت اور اثرورسوخ کے حوالے سے ناصرف عام لوگوں کے تاثر میں بلکہ حقیقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس شادی کے اخراجات کے حوالے سے جو اعدادوشمار سامنے آئے وہ دو ارب پاکستانی روپے یا 12.6 ملین امریکی ڈالر بتائے جاتے ہیں، یہ رقم زیادہ ہے یا کم، اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں مگر اس شادی پر جو ردعمل آیا وہ حیرت اور مزاح کا ملا جلا اظہار تھا۔ شادی پر جتنی بھی تنقید ہوئی ہو، ایک چیز تو ظاہر ہو گئی کہ دونوں خاندانوں کے پاس کافی پیسہ موجود ہے، یہی وہ پیغام تھا جو وہ دینا چاہتے تھے اور اس میں انہیں بہرحال کامیابی ملی۔