کراچی:شہر قائد میں ایک بار پھر عوام کو آرام دہ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنے کیلئے ٹرام سروس شروع کرنے پر کام کیا جا رہا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار علی شلوانی نے کہا ہے کہ ترکی نے شہر قائد میں ٹرام سروس شروع کرنے کی پیش کش کی ہے، میٹروپولیٹن انتظامیہ دوبارہ سے اس منصوبے پر کام کررہی ہے۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی کا کہنا تھا کہ ٹرام سروس کا روٹ 9 کلومیٹر طویل ہو گا جو میٹروپول سے شروع ہو کر آئی آئی چندریگر روڈ تک جائے گا۔
گزشتہ ماہ ترک قونصل جنرل ٹولگا یوک نے ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار علی شلوانی کو اس منصوبے کے لیے اپنے ملک کے تعاون کی پیش کش کی تھی جس پر ایڈمنسٹریٹر افتخار شلوانی نے کہا تھا کہ سستا اور تیز تر ٹرانسپورٹ سسٹم لانے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اور ترک سفارت کار کراچی کی دو مصروف ترین شاہراہوں ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگڑ میں ٹرام سروس متعارف کرانے پر راضی ہو گئے ہیں۔
کراچی میں ٹرام کی تاریخ
کراچی میں ٹرام کی تاریخ 90 سال یعنی 1885ء تا 1975ء پر محیط ہے 1884ء میں کراچی میں ٹرام کی پٹری بچھانے کے کام کی ابتدا ہوئی تھی، 20 اپریل 1885ء کو کمشنر سندھ ہنری نیپئر بی ایرکسن نے کراچی میں پہلی ٹرام کا وکٹوریہ روڈ موجودہ عبداللہ ہارون روڈ کے سامنے سینٹ اینڈریو چرچ کے قریب اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اکتوبر 1884ء میں سٹیم پاور سے ٹرام بنانے کا کام شروع ہوا اور کراچی کی سڑکوں پر ٹرام رواں دواں ہو گئی۔
اس اولین ٹرام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 25 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، یہ عام طور پر 12 سے 15 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا کرتی تھی، لکڑی سے بنی ہوئی نشستیں بیک ٹو بیک نصب کی گئی تھیں اور ایک نشست پر 6 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی لیکن سٹیم ٹرام میں سب بڑی فنی خامی یہ تھی کہ ہر پندرہ منٹ کے بعد اس میں اسٹیم کے انتظامات کرنا پڑتے تھے ،جس سے مسافروں اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
سٹیم ٹرام کے شور اور بار بار رکنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور اسے بند کر دیا گیا، اس کے بعد گھوڑوں سے کھینچی جانے والی ٹرام سروس بھی متعارف کرائی گئی، ہر ٹرام میں دو گھوڑوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ نے چلائی تھیں، آج کے رمپا پلازہ کے قریب ٹرام وے کا ہیڈ کوارٹرز واقع تھا جو ایک کمپائونڈ کی شکل میں تھا۔ اسی کمپائونڈ میں ٹرام وے کمپنی کے ملازمین کے کوارٹر اور گھوڑوں کے اصطبل ہوا کرتے تھے۔
1902ء میں پیٹرول کے ذریعے چلنے والی ٹرامیں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کے انجن تیز رفتار تھے اس لیے ازسرنو پٹریاں بچھائی گئیں، ٹرام کی پٹریاں ریل کی پٹریوں سے مختلف تھیں، یہ سڑک کی سطح کے برابر ہوتی تھیں، 1910ء میں پٹرول سے چلنے والی ٹرام باقاعدہ چل پڑی۔
اس کے بعد 1945ء میں شہر میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرامیں متعارف کرائی گئیں جو آخر وقت تک چلتی رہیں، یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی کے تحت چلا کرتی تھیں، اس کمپنی کے چیف انجینیئر کا نام جان برنٹن تھا جس نے کراچی اور کوٹری کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد انگریز یورپ واپس جانے لگے تو انہوں نے اسے بھی فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت تاجر محمد علی نے ٹرام وے کمپنی 32 لاکھ روپے میں خریدلی تھی اور اس کا نام بدل کر محمد علی ٹرام وے کمپنی رکھ دیا تھا۔
31 اپریل 1975ء کو 90 سال بعد کراچی میں ٹرام سروس بند کردی گئی، حکومت نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ کراچی تیزی سے پھیل رہا ہے، آمدورفت کے نئے ذرائع کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گیا ہے اور چوں کہ شاہراہوں پر ٹرامیں دو طرفہ چلتی ہیں، لہٰذا ان کی وجہ سے حادثات کے خطرے بڑھ گئے ہیں۔ محمد علی ٹرانسپورٹ کمپنی کو اس حکم کی پاس داری کرتے ہوئے ٹرام سروس بند کرنا پڑی۔ اس وقت کراچی کی سڑکوں پر 65 ٹرام وے چلا کرتی تھیں۔ ٹرام سروس بند ہونے سے کراچی کا اپنے ماضی سے ایک اہم رشتہ منقطع ہو گیا۔