نئی دہلی : امریکی محکمہ خزانہ کے فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (FinCEN) نے 44 بھارتی بنکوں کی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں سے پردہ اُٹھا دیا۔
فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فن سین) کی رپورٹ میں بھارت کے 44 نجی و سرکاری بنکوں کی دو ہزار ٹرانزیکشنز کو منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی معاونت اور منشیات کے کاروبار سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ تمام ٹرانزیکشنز 2011ء سے 2017ء تک کے عرصے میں کی گئیں۔
فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بھارت پاکستان پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے الزامات لگا کر اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے پورا زور لگا رہا ہے ۔
فن سین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد بھارتی بنک مشکوک انداز میں پیسہ ملک کے اندر اور باہر لے جانے میں ملوث ہیں، ان بنکوں میں بنک آف انڈیا، پنجاب نیشنل بنک، یونین بنک آف انڈیا، بنک آف بڑودا (Bank of Baroda)، کنارا بنک ( Canara Bank)، ایچ ڈی ایف سی بنک، آئی سی آئی سی آئی بنک، کوٹک مہندرا بنک (Kotak Mahindra)، ایکسز بنک (Axis Bank) اور انڈس انڈ بنک (IndusInd Bank) سمیت دیگر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے :
فین سین فائلز: چھ پاکستانی بینک بھی مبینہ منی لانڈرنگ کے مرتکب
مشکوک لین دین روکنے میں ناکامی، بڑے عالمی بینکوں کے منی لانڈرنگ کا مرتکب ہونے کا انکشاف
منی لانڈرنگ روکنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی عالمی برادری کو 9 تجاویز
ایف بی آر کی کارروائی : ایل پی جی کمپنی کی اربوں روپے کی منی لانڈرنگ بے نقاب
بھارتی بنکوں کے بارے میں یہ ہوشربا رپورٹ پاکستان کے لیے کسی طاقتور غیبی مدد سے کم نہیں، اس حوالےسے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہناہے کہ پاکستان کو اس معاملے کو ہر فورم پر اُٹھانا چاہیے اور بھارت کے ہاتھوں ستائے ہوئے ممالک کا گروہ بنا کر اس رپورٹ کو اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور ایف اے ٹی ایف کے سامنے اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے ممبر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا بھی کہنا ہے کہ یہ وقت پاکستان کےلیے دنیا کو بھارت کا منفی اور سیاہ چہرہ دکھانے کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہوشربا انکشاف کے سامنے آنے کے بعد بھارت اور اس کے اتحادیوں کے پاس پاکستان کو بلیک میل کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔
فن سین کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھاری بنکوں نے مشکوک ٹرانزیکشنز کے لیے غیر ملکی بنکوں کے انٹرنیشنل پیمنٹ گیٹ وے کا سہارا لیا۔
مزید برآں ان ٹرانزیکشنز کے لیے بھارتی بنکوں کی بیرون ملک برانچوں، جیسا کہ سٹیٹ بنک آف انڈیا کی کینیڈا میں واقع برانچ اور یونین بنک آف انڈیا کی برطانیہ میں برانچ، کا سہارا بھی لیا گیا۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں بھارتی نوادرات کے سمگلرز بھی ملوث ہیں جبکہ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) میں بھی منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال کیا گیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پاکستان کے پاس موقع میسر آ گیا ہے کہ وہ چاہے تو اس رپورٹ کو ان ممالک اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کرے جن کے ساتھ مل کر بھارت اسے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں بھیجنا چاہتا ہے۔
فِن سین فائلز کیا ہیں؟
فن سین فائلز 2657 لیک شدہ دستاویزات ہیں جن میں 2100 دستاویزات مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹس (ایس اے آر) ہیں۔ بینک یہ رپورٹس حکام کو اس وقت بھیجتے ہیں جب انھیں یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے صارف کچھ غلط کر رہے ہیں۔
قانون کے تحت بینکوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کے کلائنٹس کون ہیں، صرف ایس اے آر فائل کرتے رہنا اور کلائنٹس سے جرائم کا پیسہ لیتے رہنا کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید باندھ لی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے خود ہی نمٹ لیں گے۔ اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انھیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔
لیک دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے ذریعے کالا دھن سفید کیا گیا اور کیسے مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پیسہ چھپایا۔
یہ ایس اے آر دستاویزات میڈیا ادارے بزفیڈ کی ویب سائٹ کو لیک کی گئیں اور ان کا تبادلہ تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے ساتھ کیا گیا۔
لیک ہونے والی یہ رپورٹس سنہ 2000ء سے 2017ء کے درمیان امریکہ کے فنانشل کرائمز انویسٹیگیشن نیٹ ورک یا فن سین کو جمع کروائی گئی تھیں اور ان میں تقریباً 20 کھرب ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے۔
[…] […]