پاکستان میں مڈل کلاس کا حجم کیا ہے؟

مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد ہر سال بڑھتی گھٹتی رہتی ہے، ہر سال اس سماجی طبقے میں داخل ہونے والوں کی نسبت زیادہ لوگ اس سے خارج ہو کر لوئر مڈل کلاس کا حصہ بن جاتے ہیں، چونکہ اس کا سارا انحصار معیشت پر ہوتا ہے اس لیے کافی غیر یقینی کی صورت حال درپیش رہتی ہے

1978

5 لاکھ 48 ہزار مربع فٹ رقبہ پر کراچی کا ڈولمن مال پاکستان کے بڑے شاپنگ مالز میں سے ایک ہے، ملک کے معاشی مرکز اور کراچی کے امیر ترین علاقے کلفٹن میں ہونے کے سبب سے عام ورکنگ کلاس سے کسی قدر دور شہر کے ایک کونے میں ہے۔

ڈولمن مال میں داخلہ مفت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ بالکل ہی خالی ہاتھ چلے جائیں، مال کے دوازوں پر گارڈز ہیں جن کا سکیورٹی کا کام کم اور غیر متعلہ لوگوں کو بھگانے کا کام زیادہ ہے۔ مال کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے گزشتہ سال ایک کروڑ لوگ مال میں آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک کروڑ افراد نے انفرادی طور پر مال میں قدم رکھا بلکہ کئی لوگ شائد سال میں 20 بار بھی گئے ہوں تو وہ 20 بار ہی ایک کروڑ میں شمار کیے جائیں گے۔

اگر آپ پاکستان کے متوسط طبقے (مڈل کلاس) کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو کہیں اور جانے کی بجائے کراچی کے ڈولمن مال جائیں، سماج کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد و زن اس مال میں آتے ہیں اور آپ وہاں بآسانی پہچان سکتے ہیں کہ کون سی فیملی پہلی دفعہ آئی ہے۔

اکثر لوگوں کیلئے ڈولمن مال جانا معمول کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ لوگوں کیلئے یہ غیرمعمولی بات ہوتی ہے، ان کا تعلق سماج کے ایسے طبقے سے ہوتا ہے جو کھانے پینے سمیت دیگر گھریلو اخراجات اور بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے بعد بہ مشکل بچ جانے والی چھوٹی موٹی رقم سے کچھ نہ کچھ خریدنا چاہ رہے ہوتے ہیں بلکہ وہ بھی ضرورت کے تحت خریدنا چاہتے ہیں۔

یہی پاکستان کی مڈل کلاس ہے جس کا اچانک سے حصہ بن جانا یا اس میں سے خارج ہو جانا بالکل غیریقینی ہے، کوئی فیملی کتنا عرصہ اس کلاس کا حصہ رہتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں، کب کوئی عروج سے زوال پذیر ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا اور نہ اس کیلئے انہیں قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی قسمت کے بڑے فیصلے چھوٹے چھوٹے دفاتر میں بیٹھے سرکاری حکام کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس حجم میں کتنی بڑی ہے؟ Elphinstone کے اشتراک سے پرافٹ اردو نے پاکستان میں انکم ڈسٹری بیوشن یعنی دولت کی تقسیم، اوسط آمدن اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آمدن میں اضافے کی شرح کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

آئیے ہم آغاز اچھی باتوں سے کرتے ہیں، اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس کے افراد میں اضافہ ہوا ہے، یعنی ماہانہ تین سو ڈالر تک کمانے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے اور افرادی قوقت بھی ایک خاص حد سے متجاوز ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 

’1960ء کے بعد ایشیائی معیشتیں سب سے زیادہ متاثر، آئندہ سال بھی بحرانی ہوگا‘

غیر ہنر مند آبادی میں اضافہ، اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا کو خطرناک ترین زون قرار دیدیا

’کورونا وباء، 10 کروڑ انسانوں کو انتہائی غربت، ساڑھے 26 کروڑ کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘

1999ء سے 2018ء کے دوران پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح 2.4 فیصد رہی اور اسی عرصے میں ملک میں مڈل کلاس کی تعداد میں سالانہ 16.2 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا جو کہ آبادی بڑھنے کی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے، حتیٰ کہ 1999ء سے 2019ء تک کے اعدادوشمار کا بھی جائزہ لیا جائے تو بھی مڈل کلاس کی تعداد میں اوسطاََ 9.4 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جو آبادی کے تناسب سے 4 گنا زیادہ ہے۔

لیکن پاکستانی مڈل کلاس کے حوالے سے ایک چیز خطرناک ہے، ڈآن میں شائع ایک آرٹیکل میں خرم حسین نے کسی نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ’وہ چند سال تو آپ کو معاشی طور پر ترقی دیتے ہیں پھر مہنگائی کی صورت سب کچھ واپس لے لیتے ہیں۔‘ اعدادوشمار کے ہمارے تجزیہ کے مطابق یہ بات بالکل درست ہے اور ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں اور عام آدمی (ورک فورس) کی آمدن میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے مابین کس قدر قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔

اس کیلئے نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار (2013-18ء) کی مثال ہمارے سامنے ہے، مالی سال 2014ء کے دوران مہنگائی کا طوفان آیا اور اوسط آمدنی میں 8.2 فیصد کمی آ گئی کیونکہ نواز انتظامیہ گزشتہ حکومت کے چھوڑے ہوئے مسائل سے نبرد آزما تھی، تاہم اگلے چار سالوں کے دوران مہنگائی کے باوجود فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا، سستے درآمدی تیل، قرضوں کے سہارے اور مصنوعی طور پر ہی سہی ڈالر کو 100 روپے سے نیچے رکھا گیا اور معیشت تیزی سے ترقی کرتی گئی۔

لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد یہ مصنوعی سہاروں کے بل پر کھڑا کیا گیا معاشی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آن گرا۔

معیشت کے ساتھ ایسا صرف نواز شریف کی حکومت میں ہی نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے، مسلم لیگ ن سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی یہی کچھ کیا، یہاں تک گولڈن ایرا سمجھے والے مشرف کے دور حکومت میں بھی معیشت کے ساتھ یہی کچھ ہوا، 2002ء سے 2005ء تک معیشت نے خوب ترقی کی، 2006ء میں کسی قدر دھچکا لگا، 2007ء بہتر رہا اور 2008 میں معاشی بحران نے آ لیا۔

ان سب عوامل کے اثرات آپ نہ صرف لوگوں کی اوسط آمدن کی سطح پر دیکھ سکتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ معاشی ترقی کے دنوں میں کتنے افراد لوئر مڈل کلاس سے اٹھ کر مڈل کلاس کا حصہ بن گئے، اسی طرح کساد بازاری اور معاشی مندی کے دنوں میں مڈل کلاس سے کتنے لوگ لوئر مڈل کلاس میں لڑھک گئے۔

پاکستان میں کسی بھی حکومت نے سماجی طبقات کے مابین توازن قائم کرنے اور معیشت کی بہتری کیلئے طویل المدتی حکمت عملی تشکیل دینے کی کوشش نہیں کی حالانکہ یہ کوشش سیاسی حکومتوں کو الیکشن جیتنے میں بھی مدد دے سکتی تھی، اسی طرح آمروں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں مذکورہ مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔

پاکستانی معیشت کو اگر ترقی دینی ہے تو ہر الیکشن سے پہلے آنے والے معاشی بحران کے چکر کو ختم کرنا ہو گا، معیشت میں اب بھی تیزی اور مندی آئے گی لیکن اگر وہ بغیر کسی مصنوعی پن اور سہارے کے، قدرتی طور پر آئے تو ہو سکتا ہے بہتری کی راہ نکلے، لوگوں کی آمدن بڑھے ہو اور وہ مہنگائی برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں۔

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شائد جو لوگ ڈولمن مال میں پہلی بار آنے والی فیملی کی طرح پہلی بار مڈل کلاس کا حصہ بن رہے ہیں، وہ اپنی معاشی حالت کے حوالے سے کسی قدر زیادہ پراعتماد ہو سکیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here