واشنگٹن: امریکہ نے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا، ایرانی جوہری ہتھیاروں سے متعلق 27 کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کی وزارت دفاع پر پابندیاں لگا رہا ہے، آج کی پابندیاں زیادہ تر ایرانی جوہری توانائی ایجنسی سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں یورینیم افزودگی کے دو مرکزی افراد پر بھی پابندی لگائی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایران بیلسٹک میزائل بنانے میں معاونت کرنے والوں پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
پومپیو نے کہا کہ ایران کے پانچ سائنسدانوں کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے، ایرانی جوہری ہتھیاروں سے متعلق 27 کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، امید ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک ایران پر دوبارہ سے پابندیاں لگائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا مقصد اسے اسلحہ خریدنے سے روکنا ہے، ایران ترقی کے بجائے دہشت گردی پر عوام کا پیسہ ضائع کر رہا ہے۔
پومپیو نے کہا کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباﺅ کی پالیسی جاری ہے اور امریکہ ایران کی ہر اشتعال انگیزی اور جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ امریکہ نے وینزویلا کے صدر مادورو پر بھی پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا۔
امریکی پابندیوں کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکا کے پاس کوئی حق نہیں کہ وہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے دوبارہ پابندیوں لاگو کرنے کی کوشش کرے۔
ایرن کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکا نے ہٹ دھرمی کرنے اور سلامتی کونسل کی منسوخ کردہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی ہے تو یقیناً ایران بھی جواب دے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی سیاسی و قانونی شعبے میں اس کی زیادہ سے زیادہ تنہائی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ایران کے سامنے صرف ایک راستہ ہے اور وہ راستہ ایرانی عوام کے حقوق کے احترام کا راستہ ہے۔ ایران کے ساتھ ہٹ دھرمی، دھونس اور دھاندلی کا روّیہ اختیار کرنے والے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آج امریکہ کو یقیناً شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ادھر یورپی یونین نے ایران پر نئی امریکی پابندیوں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ( JCPOA) جے سی پی او اے کے تحت ان پابندیوں پر پابندی جاری رہے گی۔
یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد 2231 کے تحت اقوام متحدہ کی ’اسنیپ بیک میکانزم‘ کے بارے میں نام نہاد پابندیوں کے امریکی اعلان کو نوٹ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے اپنے 20 اگست اور JCPOA کے جوائنٹ کمیشن کے یکم ستمبر 2020ء کو ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ اپنے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے 8 مئی 2018ء کے بعد یکطرفہ طور پر جے سی پی او اے میں اپنی شرکت روک دی تھی اور اس کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینا بند کر دیا تھا۔
اس ساری صورتحال میں اسے ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کے لیے تیار کردہ JCPOA کی شریک ریاست نہیں سمجھا جا سکتا، وہ خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت جے سی پی او اے کے وعدوں کے خاتمے کا اعلان اور نئی پابندیاں عائد نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل اس جوائنٹ کمیشن کے کوآرڈی نیٹر ہیں جس نے ایران کے ساتھ اپنا جوہری پروگرام معطل کرنے کی صورت میں اس پر سے معاشی پابندیاں اٹھائی تھیں۔
اعلامیے میں انہوں نے مزید کہا کہ جوائنٹ کمیشن کے کو آرڈی نیٹر کی حیثیت سے میں اس معاہدے کے تحفظ اور مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہوں گا۔
انہوں نے مزید یاد دلایا کہ جے سی پی او اے بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کی روک تھام کا ایک اہم ستون ہے، جس نے ایران کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے علاقائی اور عالمی سلامتی کو جامع انداز میں ایڈریس کیا ہے۔
انہوں نے تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں اور کسی بھی ایسی کاrروائی سے باز رہیں جو موجودہ صورتحال کو خراب کرنے کا سبب بنے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے ایران کے خلاف یکطرفہ طور پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے مزید دھمکی دی تھی کہ امریکا اقوام متحدہ کے ان رکن ممالک کے خلاف بھی ایکشن لے گا جو ان پابندیوں کی پاسداری نہیں کریں گے۔