لاہور: انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فنانس (آئی آئی ایف) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نجی سیکٹر کی بحالی کے ساتھ پاکستان کی معیشت کی شرح نمو جاری مالی سال 2020-21ء کے دوران 1.8 فیصد تک جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وباء کی وجہ سے گزشتہ سال معیشت 0.7 فیصد سکڑ گئی، مقامی سطح پر مصنوعات اور خدمات کی طلب میں 2 فیصد کمی آئی، مصنوعات اور خدمات کی برآمدات میں 1.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں 7.3 فیصد کی نمایاں کمی آئی۔
تاہم وباء کے معیشت پر اثرات کم ہو رہے ہیں، دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد بھی کافی کم رہی ہے لیکن اگر عداد و شمار کا معیار، ٹیسٹنگ کی صلاحیت اور شفافیت کو دیکھا جائے تو اس حوالے سے بھی غیر یقینی پائی جاتی ہے۔
گو کہ پاکستان میں کورونا کا زور ٹوٹ چکا ہے اور وسط اگست تک ملک بھر میں لاک ڈائون ختم کر دیا گیا تھا پھر بھی نظام صحت پر کافی دبائو برقرار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2020ء میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے ملنے والی 1.4 ارب ڈالر امداد کی وجہ سے حکومت کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے مناسب اقدامات اٹھانے میں کامیاب رہی۔
’سماجی پروگراموں پر توجہ دیتے ہوئے معاشرے کے کمزور طبقے کی مدد کی گئی، معاشی سرگرمیوں کو کسی قدر بحال رکھا گیا اور صحت کے نظام پر دبائو بڑھنے نہیں دیا گیا، سٹیٹ بینک نے بھی اس میدان میں حکومت کو کافی معاونت فراہم کی، شرح سود میں کمی کی گئی مالیاتی استحکام اور روز گار کے تحفظ کیلئے قرضہ سکیمیں متعارف کرائی گئیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک نے فروری 2020ء کے بعد پالیسی ریٹ میں 625 بیسز پوائنٹ کمی کی اور شرح سود 13.25 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد مقرر کر دی، اس کے علاوہ حکومت نے 5.1 ارب ڈالر کا معاشی ریلیف پیکج متعارف کرایا جو ملکی جی ڈی پی کے 1.9 فیصد کے برابر تھا جس کے تحت مزدوروں اور غریبوں کو براہ راست مالی امداد فراہم کی گئی، کسانوں اور چھوٹے کاروباروں کو سبسڈٰی فراہم کرنے کے ساتھ ٹیکسوں اور بجلی کے بلوں میں چھوٹ دی گئی۔
اس معاشی ریلیف پیکج کی ایک تہائی رقم خرچ کی جا چکی ہے جبکہ بقیہ 3.4 ارب ڈالر جاری مالی سال کے دوران خرچ کیے جائیں گے۔
آئی آئی ایف کی رپورٹ کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بیرونی خطرات کم ہوئے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی اور وہ اب مارکیٹ کی صورت حال کے عین مطابق ہیں۔
دوسری جانب بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا، حکومت نے ترسیلات بڑھانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے، ری امبرسمنٹ آف ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) چارجز سکیم متعارف کرائی جس کے تحت کوئی تارک وطن کم از کم 100 ڈالر بھی بھیج سکتا ہے، ترسیلات زر کی وصولی کیلئے ڈیجیٹل ذرائع میں اضافہ کیا گیا۔
اسی طرح تجارتی خسارہ میں کمی اور ترسیلات زر میں اضافہ نے جاری کھاتوں کے خسارہ (کرنٹ اکائونٹ) کو 4.8 فیصد سے 1.1 تک کم کر دیا تاہم رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ درآمدات بڑھنے اور ترسیلات زر میں معمولی کمی سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.6 فیصد تک جا سکتا ہے۔
’اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے دوسرے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) پروگرام پر نظرثانی کے التواء کی وجہ سے معاشی اصلاحات کا عمل بھی جمود کا شکار ہے۔‘
جون 2020ء تک بجٹ خسارے میں 8.1 تک کمی کے پیچھے کارفرما عوامل میں سٹیٹ بنک کی جانب سے منافع کی بجٹ میں منتقلی ہے جس نے حکومت کی نان ٹیکس آمدن میں اضافہ کیا، وبا کے دوران حکومت کے معاشی و سماجی ریلیف کے پروگرام اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کی وجہ سے اخراجات میں 15.6 فیصد دیکھنے میں آیا۔
جاری مالی سال کے بجٹ میں بھی کئی طرح کی سبسڈیز میں کمی کی گئی، تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا اور پٹرولیم لیوی کو بڑھا دیا گیا۔
آئی آئی ایف کی رپورٹ کے مطابق بجٹ میں مالیاتی خسارے کا اندازہ جی ڈی پی کے 7 فیصد کے برابر رکھا گیا جبکہ جاری مالی سال میں معاشی شرح نمو 2.1 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی تاہم بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا گیا، سود کی ادائیگیوں میں بھی 6.3 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے جاری مالی سال کے دوران مالیاتی خسارہ 8.7 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کا سرکاری قرضہ جون 2021ء تک جی ڈی پی کے تناسب سے 86 فیصد تک جا سکتا ہے جو 2018ء میں جی ڈی پی کے 77 فیصد کے برابر تھا۔
بہرحال آئی آئی ایف نے متنبہ کیا ہے کہ بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہو گی کیونکہ آئندہ سالوں میں قرضوں کی ادائیگی زیادہ رہے گی۔
’تاہم جاری کھاتوں میں بہتری، قرضوں کی واپسی اور ڈیبٹ سروس سسپنشن انیشی ایٹو (ڈی ایس ایس آئی) نے پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات کو کم اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر دیا ہے جو جون 2021ء تک 15.4 ارب ڈالر تک جا سکتے ہیں۔
ڈی ایس ایس آئی کے تحت قرضوں کے التواء نے پاکستان سمیت دیگر کم آمدنی والے ممالک کو کورونا وائرس سے لڑنے کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل مخصوص کرنے کے قابل بنایا ہے۔