اشیائے ضروریہ بنانے والی پاکستانی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی قیمتیں جتنی بھی بڑھا لیں انکے لیے اپنی لاگت پوری کرنا ایک مسئلہ ہی رہتا ہے۔
ٹاپ لائن سکیورٹیز کے ریسسرچ اینالسٹ سنی کمار کی جانب سے 17 مارچ کو اپنے کلائنٹس کو جاری کردہ ایک نوٹ کے مطابق 20 پاکستانی کمپنیوں کی مالیاتی کارکردگی کے تجزیے کے مطابق سال 2019 میں ان کمپنیوں کے منافعے میں سال 2018 کی نسبت 26 فیصد کمی ہوئی۔
بنیادی اشیا ضروریہ بنانے والی 12 کمپنیوں جن میں نیسلے ، پیکجز، پاکستان ٹوبیکو، کالگیٹ پامولیو وغیرہ شامل ہیں کے منافعے میں سال 2019 میں 13فیصد کمی ہوئی یہ 33.9ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔
اسی طرح دوائیں بنانے والی کمپنیوں جن میں گلیکسو سمتھ کلین، ایبٹ لیبارٹریز، اور اے جی پی فارما وغیرہ شامل ہیں کے منافعے میں بھی سال 2019 میں گزشتہ برس یعنی سال 2018 کی نسبت 13 فیصد کمی ہوئی جو کہ 9.1 ارب روپے بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
انڈس موٹرز، ہنڈا اٹلس اور تھل لمیٹڈ کے مجموعی منافعے میں 48 فیصد یعنی 14.6ارب روپے کی کمی ہوئی۔ اس کی وجہ لوگوں کی جانب سے اوپر بیان کی گئی مصنوعات کی نسبت قدرے غیر ضروری اشیا کے لیے رقم خرچ کرنے سے پرہیز ہے۔ سال 2018 کی نسبت سال 2019 میں اس سیکٹر کی آمدنی میں 23 فیصد کی کمی ہوئی۔
سخت ترین حالات میں بھی صارفین اشیائے ضروریہ جیسا کہ دودھ دہی، دانتوں کی صفائی کی مصنوعات یہاں تک کہ سگریٹ کی خریداری کم نہیں کرتے بلکہ ان اشیا کی خریداری کے لیے دوسرے اخراجات کم کردیتے ہیں۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ معاشی سست روی کا ادویات کی خریداری پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا اور لوگ انکی خریداری کے لیے دیگر اخراجات میں کمی کردیتے ہیں۔
اگرچہ بنیادی اشیا ضروریہ اور ادویات کی فروخت میں 2019 میں 7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا مگر پھر بھی یہ شرح حال ہی میں ریکارڈ کی گئی شرح سے کم ہے جس کے مطابق دونوں سیکٹرز کی پانچ سالہ آمدنی میں اضافے کا تناسب بالترتیب 8 اور16 فیصد ہے ۔
بنیادی اشیائے ضروریہ بنانے والی کمپنیوں کی آمدنی میں اضافے کی وجہ ان کمپنیوں کی مصنوعات کی قیمتوں کا بڑھنا تھا۔ قیمتوں میں یہ اضافہ روپے کی بے قدری کی وجہ سے ہوا۔ ان میں سے کچھ کمپنیوں کی سیلز بڑھیں اور کچھ کی کم ہوئیں جیسا کہ نیسلے کی سیلزمیں چار فیصد کی کمی جبکہ اینگرو فوڈز اور کالگیٹ کی فروخت میں پچھلے برس یعنی 2018 کی نسبت 20 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اس ڈیٹا کی مدد سے اس مفروضے کی نفی ہوتی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی دراصل کمپنیوں کی جانب سے منافعے میں اضافے کا حربہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی دو وجوہات ہیں ایک تو حکومت کا اپنے اخراجات اپنے ذرائع سے پورے نہ کرپانا اور مرکزی بنک سے قرض لینا اور دوسرا وہ معاشی پالیسیاں جن کے باعث حکومت سبسڈی دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔
ادویہ سازی کی صنعت کی سیلز مییں اضافہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا تاہم ان کمپنیوں کا مجموعی مارجن 2.4 فیصد کی کمی کے بعد 31.2 فیصد ہوگیا۔
قدرے غیر ضروری اشیاء جیسا کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو لاگت میں اضافے کو صارف تک منتقل نہ کرنے کے باوجود سیلز میں 25 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا اور انکا مجموعی مارجن بھی 2.73 فیصد کم ہو کر 10.1 فیصد ہوگیا ہے ۔
تو کیا اس سب میں روشی کی کوئی کرن ہے؟ سال 2019 کی چوتھی سہ ماہی میں کمپنیوں کی سیلز میں 2019 کی تیسری سہ ماہی کی نسبت 8 فیصد اضافہ ہوا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ بنانے والی اور ادویہ ساز کمپنیوں کی سیلز میں بالترتیب 9 اور 17 فیصد کا اضافہ ہوا۔
سال 2019 کی چوتھی سہ ماہی میں بڑھنے والی قیمتوں نے بالآخر بڑھتی لاگت کے مسئلے پر قابو پا ہی لیا یہاں تک کہ مجموعی مارجن بھی دو پوائنٹس بڑھ گیا۔
بہتری کا یہ عمل اس سہ ماہی میں بھی جاری رہتا اگر کورونا وائرس کی وبا نہ پھوٹ پڑتی ۔ وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاون کے باعث سپلائی میں تعطل آئے گا جس سے ان کمپنیوں کی سیلز اور لاگت متاثر ہونگی اور اگر پاکستان مکمل لاک ڈاون کی طرف جاتا ہے تو سیلز میں کمی مسائل میں سے سب سے چھوٹا مسئلہ ہوگا۔