پاکستانی روپے کی قدر میں مزید نمایاں کمی متوقع نہیں: کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی

251

لاہور: بلوم برگ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ ہے پاکستانی کرنسی کی قدر میں دوبارہ کمی ہونے کا امکان نہیں کیونکہ روپے پر دباؤ کم ہو گیا ہے۔

بلوم برگ کے حوالے سے ای میل کے جواب میں امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ‘فِچ ریٹنگز’ کے ہانگ کانگ میں مقیم ڈائریکٹر کرسجنیس کرسٹینز (Krisjanis Krustins) نے کہا ہے کہ ’’ہمیں فی الحال پاکستانی روپے کی مزید قدر میں کمی کی توقع نہیں۔‘‘

کرسٹینز کے نزدیک اگرچہ کرنسی گزشتہ چند مہینوں میں قدرے مستحکم رہی لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ذخائر پر دباؤ بھی موجود ہے جو کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے حوالے سے بنیادی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

11 مئی کو 298.93 کی کم ترین سطح پر آنے کے بعد سے، پاکستانی روپیہ مستحکم ہے اور انٹر بینک مارکیٹ میں 284-287 کی حد میں منڈلا رہا ہے۔ تاہم رواں سال روپے نے 21 فیصد سے زائد اپنی قدر کھوئی ہے جس سے یہ عالمی سطح پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسیز میں شامل ہو گیا ہے۔

مزید برآں مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے کم ہیں جس سے پاکستان کے قرضے ادا کرنے کی صلاحیت پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان بیل آؤٹ پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، جو نویں جائزے میں تعطل کا شکار ہے، جبکہ سٹاف لیول ایگریمنٹ پر بات چیت کے لیے ضروری فنانسنگ کی یقین دہانیوں کو حاصل کرنے پر کھینچا تانی جاری ہے۔

کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے کہا ہے کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ بجٹ پر وضاحت کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کے جائزے کو مکمل کرے گا تو اس کا امکان کم ہے کیونکہ اس پروگرام کی اصل میعاد جون کے اختتام پر ختم ہونے والی ہے اور اکتوبر میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کے لیے فوری طور پر کسی مالیاتی پیشرفت کا امکان نہیں۔

گزشتہ ماہ پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے کہا تھا کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جس میں غیر ملکی زرمبادلہ کی مناسب مارکیٹ کے کام کی بحالی، پروگرام کے اہداف کے مطابق مالی سال 2024 کے بجٹ کی منظوری، اور مناسب فنانسنگ پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

ڈالر کی کمی کی وجہ سے 10جون کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ پاکستان میں قرضوں کی تنظیم نو کے لیے بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے اور حکومت قرضوں کی تنظیم نو کے لیے دو طرفہ قرض دہندگان سے بات کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے بجٹ کے بعد کی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “کثیرالجہتی ترقیاتی اداروں کے پاس جانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ان سے ہمارے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ لیکن ہم دو طرفہ قرضوں پر بات چیت کر سکتے ہیں اور بجٹ کا عمل ختم ہونے کے بعد اپنے دو طرفہ شراکت داروں سے بات کریں گے۔”

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here