بجٹ کیا ہے، اس کی رقم کہاں سے آتی ہے اور کیسے خرچ ہوتی ہے؟

360

لاہور: وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-24 کے لیے مجوزہ بجٹ جمعہ 9 جون کو پیش کیا جس میں سرکاری اخراجات اور محصولات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

بجٹ ایک آرٹ ہے

بجٹ ضروری خدمات پر خرچ کرنے اور مستقبل کی ترقی میں سرمایہ کاری کے درمیان توازن کا ایک نازک عمل ہے۔ اس میں اخراجات کو محصولات سے اس طرح ملانا شامل ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت کے اخراجات پائیدار ہیں اور اس کی پالیسی کی ترجیحات کے مطابق ہیں۔ موجودہ اور ترقیاتی اخراجات کے درمیان صحیح توازن قائم کرنے کیلئے اسے محتاط منصوبہ بندی اور تجزیے کی ضرورت ہے۔

پیسہ کہاں سے آئے گا؟

وفاقی بجٹ 2023-24ء کا مجموعی حجم 14.46 ٹریلین روپے ہے۔ حکومت کئی ذرائع سے آمدنی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو، نان ٹیکس ریونیو، نان بینک قرضے، خالص بیرونی وصولیاں اور نجکاری جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ایف بی آر سے مراد حکومت کا ٹیکس وصولی کرنے والا ادارہ ہے اور بجٹ میں حکومت نے اس کے ذریعے 9.2 ٹریلین روپے جمع کرنے کا تخمینہ لگایا ہے جو کل وسائل کا 63.6 فیصد ہے۔ نان ٹیکس ریونیو سے مراد ٹیکس کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن ہے، جیسا کہ فیس، جرمانے، منافع وغیرہ اور اس کا حساب 2.963 ٹریلین روپے یا کل وسائل کا 20.5 فیصد لگایا گیا ہے۔

نان بینکنگ قرضہ لینے سے مراد بینکوں کے علاوہ دیگر ذرائع سے قرض لینا ہے، جیسا کہ نیشنل سیونگ سکیم (NSSs) اور دیگر نان بینکنگ ذرائع۔ اس کیٹگری میں 1.906 ٹریلین یا کل وسائل کا 13.2 فیصد آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ خالص بیرونی وصولیوں (receipts) سے مراد حکومت کو موصول ہونے والی بیرونی مالی اعانت کی خالص رقم ہے اور اس ضمن میں 2.527 ٹریلین روپے یا کل وسائل کا 17.5 فیصد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ 

بینکنگ قرض سے مراد ٹریژری بلز (T-Bills)، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (PIBs) اور سکوک بانڈز جیسے آلات کے ذریعے بینکوں سے قرض لینا ہے اور اس مد میں 3.124 ٹریلین یا کل وسائل کا 21.6 فیصد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ نجکاری سے مراد سرکاری اثاثوں یا اداروں/ کمپنیوں کی نجی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن ہے اور اس مد میں 0.015 ٹریلین روپے یا کل وسائل کا 0.1 فیصد کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 

رقم خرچ کیسے کی جائے گی؟

14 ٹریلین روپے سے زائد کے وفاقی بجٹ کو دو اہم کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے: موجودہ (current) اخراجات اور ترقیاتی اخراجات۔

موجودہ اخراجات کا مجموعی حجم 13.3 ٹریلین روپے یا کل اخراجات کا 92 فیصد ہے اور اس میں کئی ذیلی کیٹگریز شامل ہیں جیسا کہ سود کی ادائیگی، پنشن، دفاعی امور، صوبوں اور دیگر کو گرانٹس کی منتقلی، سبسڈیز، سول حکومت کے اخراجات اور ہنگامی صورتحال کیلئے وسائل کی فراہمی وغیرہ۔ 

سود کی ادائیگیوں سے مراد حکومت کی طرف سے مقامی و بین الاقوامی اداروں سے لیے گئے قرض پر کی گئی ادائیگیوں اور روپے کے حسابات شامل ہیں جن کا مجموعی حجم 7.303 ٹریلین یا موجودہ اخراجات کا 50.5 فیصد ہے۔ پنشن سے مراد حکومت کی طرف سے ریٹائرڈ ملازمین کو کی جانے والی ادائیگی ہے جو 761 ارب روپے یا موجودہ اخراجات کا 5.3 فیصد ہے۔ دفاعی امور اور خدمات سے مراد قومی دفاع اور فوجی خدمات پر خرچ کرنا ہے، یہ رقم 1.804 ٹریلین یا موجودہ اخراجات کا 12.5 فیصد ہے۔

صوبوں اور دیگر کو گرانٹس اور ٹرانسفرز سے مراد وفاقی حکومت کی طرف سے صوبائی حکومتوں اور اداروں کو دی گئی گرانٹس ہیں۔ سبسڈیز سے مراد حکومت کی طرف سے بعض صنعتوں یا شعبوں کی مدد کے لیے فراہم کی جانے والی مالی امداد ہے۔

اسی طرح سول حکومت کے محکموں کے روزمرہ کے معاملات چلانے کیلئے 0.714 ٹریلین یا موجودہ اخراجات کا 4.9 فیصد رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی اخراجات 1.140 ٹریلین یا کل اخراجات کا 8 فیصد ہیں۔ 

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ اعدادوشمار دستیاب معلومات پر مبنی نظریاتی تخمینے ہیں۔ معاشی حالات میں تبدیلی یا غیر متوقع واقعات جیسے مختلف عوامل کی وجہ سے حقیقی اعدادوشمار میں مالی سال کے دوران اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے۔

اگرچہ یہ سچ ہے کہ یہ نظریاتی تخمینے ہیں، یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ بجٹ اب سال بھر میں چیزوں کو تبدیل کرنا مشکل بنا دیتا ہے کیونکہ یہ ایک فریم ورک متعین کرتا ہے جس کے اندر اخراجات کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

بجٹ حکومت کے وژن اور ملک کے لیے ترجیحات کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ یہ حکومت کیلئے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور عوام کے سامنے احتساب اور شفافیت کا طریقہ کار بھی ہے۔ یہ ایک دستاویز ہے جو تمام سٹیک ہولڈرز کی توجہ اور جانچ کی مستحق ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here