لاہور: وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-24ء کے 14.5 ٹریلین ڈالر کے بجٹ میں 1.14 ٹریلین روپے سے زائد رقم مختلف شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے مختص کی ہے۔
یہ رقم گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے جب ترقیاتی منصوبوں کے لیے 727 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کو دیے گئے بجٹ میں 30 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر ترقیاتی بجٹ کے لحاظ سے انتخابی سال اہم ہوتا ہے کیونکہ سبکدوش ہونے والی حکومتیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے والے منصوبوں پر پیسہ خرچ کرکے اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم اس سال حکومت انتخابی سال کے بجٹ کی سیاسی ضروریات اور آئی ایم ایف کے دبائو کو متوازن کرنے کا ایک خطرناک کھیل کھیلنے کیلئے کوشاں ہے۔ عالمی قرض دہندہ دراصل حکومت سے اخراجات میں کمی کرنے پر اصرار کرتا رہتا ہے۔
پی ایس ڈی پی پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری کا ایک اہم حصہ ہے، جس کے تحت وفاقی، صوبائی اور مقامی اداروں کے تیار کردہ ترقیاتی پروگراموں اور منصوبوں کو لاگو کرنے کے لیے مالیاتی وسائل کا استعمال کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ وہ پیسہ ہوتا ہے جسے وفاقی حکومت نے عوامی منصوبوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں پی ایس ڈی پی کے لیے 1.14 کھرب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس بار مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے کم از کم 485 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) اور واپڈا جیسے اداروں کے لیے حکومت نے بجٹ میں 215 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال میں 176 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
وفاقی حکومت کے تحت صوبائی منصوبوں کے لیے 42 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت خصوصی علاقوں کے لیے 61 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ کے پی کے ضم شدہ علاقوں کے لیے 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حکومت نے پائیدار ترقیاتی اہدات کے حصول کے لیے 90 ارب روپے مختص کیے ہیں جس سے یہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت 950 ارب روپے ہے۔ حکومت نے پبلک پرائیویٹ شراکت داری اور تعمیر کرو اور منتقل کرو جیسے طریقوں کے تحت مکمل کیے جانے والے منصوبوں کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے ہیں جس سے مرکز کا مجموعی ترقیاتی پورٹ فولیو 1150 ارب روپے ہو گیا ہے۔
بجٹ بک کے مطابق بنیادی ڈھانچے کے شعبے کو ترجیح دی گئی ہے جو کہ وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے جس کے لیے 52 فیصد سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔
تقریباً 10 فیصد وسائل دیگر شعبوں جیسے آئی ٹی اور ٹیلی کام، ایس اینڈ ٹی، گورننس اور پروڈکشن سیکٹر وغیرہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
سماجی شعبے کو صحت، تعلیم، اعلیٰ تعلیم، آبادی کی بہبود، گورننس اور خصوصی پروگراموں کے لیے 241.9 بلین (25.5 فیصد) دیے جائیں گے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جدت اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے محدود جگہ کے اندر خاطر خواہ فنڈز بھی مہیا کئے گئے ہیں۔
بجٹ بک کے مطابق، ملک میں پیداوار بڑھانے کے اقدامات کے ذریعے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خوراک اور زراعت کے شعبے کیلئے بھی خطیر رقم مختص کرنے کوترجیح دی گئی ہے۔
بجٹ میں درج ذیل پاپولسٹ اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے:
سولر ٹیوب ویلز
چھوٹے قرضوں کے لیے یوتھ پروگرام
پاکستان فنڈ برائے تعلیم
آئی ٹی سٹارٹ اپس اور وینچر کیپیٹل کے لیے سپورٹ
خواتین کو بااختیار بنانا
لیپ ٹاپ سکیم
نوجوانوں کی مہارت کی ترقی
سکول سے باہر بچوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے قومی فنڈ کا قیام