گولڈن ڈیل سے محرومی کا خطرہ، ٹینڈر کی بجائے پی ایس او کیلئے متبادل راستے کی تلاش

171

لاہور: پاکستان سٹیٹ آئل (ہی ایس او) اس وقت ایک دوراہے پر کھڑی ہے کیونکہ اسے حکومت اور بین الاقوامی آئل کمپنیوں کے مابین مجوزہ سنہری معاہدے سے محروم ہونے کا خطرہ ہے جو انہیں پاکستانی بندرگاہوں پر کسٹم بانڈڈ سٹوریج کی سہولیات کو چلانے کی اجازت دے گا۔

قوانین کے مطابق تمام سرکاری کمپنیوں کو کسی بھی خریدوفروخت سے قبل پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کے ضوابط کے تحت ایک ٹینڈر کھولنا پڑتا ہے اور اس عمل میں کچھ وقت لگتا ہے۔

دوسری طرف نجی طور پر چلنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کو اس طرح کی بوجھل مشق سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس طرح پی ایس او پبلک کمپنی ہونے کے ناطے ایک قدیم ضابطے کی پابند ہے جس کے تحت کمپنی کو تیل کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے سے قبل ٹینڈرز کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔

اس طریق کار میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ٹینڈر کے اس طویل عمل سے گزرنے کے بعد ڈیل کیلئے پابند یہ کمپنی سپاٹ آئل کی خریداری کے لیے کسٹم بانڈڈ سٹوریج کی سہولیات سے کیسے فائدہ اٹھا سکے گی۔

یہی وجہ ہے کہ جب دیگر ادارے ڈیلز سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں جبکہ پی ایس او ٹینڈر کے عمل کے سرکاری طریقہ کار میں الجھی رہتی ہے۔ یہ حالت، جو پہلے ایک حفاظتی اقدام کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اب ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے کیونکہ پی ایس او کسی قسم کے فوائد سے محروم رہے گی۔

تمام او ایم سیز کے لیے برابر کا موقع فراہم کرنے کے لیے حکومت کو پی ایس او کے لیے اس ٹینڈر کی شرط کو ختم کرنا ہو گا۔ پی ایس او کے مسابقتی رہنے کی واحد وجہ اس کا بھاری حجم ہے جو کہ نجی طور پر چلنے والی دیگر او ایم سیز سے بڑا ہے۔ اس وقت پی ایس او کا مارکیٹ شیئر رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 50.2 فیصد رہا۔

اس سنہری ڈیل کی واقفیت رکھنے والے ذرائع کے مطابق حکومت عوامی او ایم سیز کو طویل ٹینڈر کے عمل سے مستثنیٰ کرنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here