پاکستان 5 شعبوں سے سالانہ 956 ارب کا نقصان اٹھا رہا ہے: رپورٹ

322

لاہور: پانچ بڑے شعبوں یعنی رئیل اسٹیٹ، تمباکو انڈسٹری، ٹائرز اینڈ آٹو لبریکنٹس، فارماسیوٹیکل اور چائے کی غیر قانونی تجارت کی وجہ سے پاکستان کو ٹیکس آمدن کی مد میں سالانہ 956 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

مارکیٹ ریسرچ اور رائے عامہ کے معروف بین الاقوامی ادارے IPSOS کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلے سے مالی مشکلات کے شکار پاکستان کو غیرقانونی تجارت کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ غیر قانونی تجارت عالمی سطح پر پاکستان کی کارکردگی کو کمزور کر رہی ہے اور ٹیکس آمدن کی ایک بہت بڑی رقم اس مد میں ضائع ہو رہی ہے جسے ترقیاتی اخراجات کی مد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارے کی تحقیق کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری دراصل قانونی خلاء، تفتیش کے فرسودہ طریقہ کار، کم رقم کی رسید بنانے اور نقد لین دین  کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں غیر ٹیکس شدہ رقم  500 ارب روپے تک ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ریگولیٹرز کے ذریعے قواعد کے سختی سے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔

پاکستان میں تمباکو کی صنعت ملک کی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے یہ سب سے زیادہ منافع بخش بھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سگریٹ کی مجموعی مارکیٹ کا 38 فیصد حصہ ایسے برانڈز پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی طرح غیرقانونی سگریٹ بناتے، بیچتے یا اس کی تجارت کرتے ہیں۔

سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کل مارکیٹ کا 48 فیصد ہے۔ سمگل شدہ سگریٹ برانڈز غیر قانونی ذرائع سے ملک میں لائے جاتے ہیں اور مقامی قوانین کو پس پشت ڈال کر ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق 48 فیصد یا تقریباً 2 ارب سگریٹ پیک سالانہ 240 ارب روپے کی ٹیکس چوری کر رہے ہیں۔

آئی پی ایس او ایس کی رپورٹ کے مطابق ٹائروں کی مارکیٹ کا 65 فیصد غیر قانونی یا سمگل شدہ ٹائروں پر مشتمل ہے جبکہ کل کھپت کا صرف 20 فیصد مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور 15 فیصد قانونی طور پر درآمد کیا جاتا ہے۔

2022ء کے ایف بی آر کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 20 ارب روپے ٹائر انڈسٹری سے ٹیکس کی اکٹھے کیے گئے تھے، یہ رقم ریکارڈ پر ہے جو ٹائر مارکیٹ پر عائد ہونے والے اصل ٹیکسوں کا محض 35 فیصد بنتی ہے۔

صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائر کی درآمد کا 25 فیصد انڈر انوائسنگ پر مشتمل ہے جس سے حکومت کو مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومت نے لبریکنٹس انڈسٹری سے 187 ارب روپے ٹیکس وصول کیا۔ رپورٹ کے مطابق ٹائر اور آٹو لبریکینٹ سیکٹر سے کل 106 ارب روپے چوری کیے جا رہے ہیں۔

آئی پی ایس او ایس کے مطابق فارماسیوٹیکل سیکٹر جعلی اور سمگل شدہ ادویات کی لعنت سے دوچار ہے۔ غیر قانونی ادویات کا مالی نقصان تقریباً 60 سے65 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی صورت میں ہو رہا ہے۔ یہ نقصان غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ فارمیسیوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ  قانونی اورغیر قانونی ادویات کے درمیان فرق کرنے کے لیے ریگولیٹرز کے بارے میں آگاہی کی کمی کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح چائے کے شعبے میں ٹیکس چوری کا تخمینہ 45 ارب روپے سالانہ ہے۔

اگر مذکورہ پانچ شعبوں میں 956 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری پر قابو پا لیا جائے تو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی مجموعی لاگت یہاں سے ہی پوری کی جا سکتی ہے۔ یہ بڑی رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مکمل مالی اعانت کے لیے بھی کافی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ٹیکس چوری کو روک لیا جائے تو پاکستان تعلیمی بجٹ کو 10 گنا تک بڑھا سکتا ہے۔ یہ رقم مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے کافی ہے۔ اس رقم سے 1700 کلومیٹر سے زائد موٹر ویز بن سکتی ہیں، یا پھر اس رقم کو آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here