اسلام آباد: پاکستان کی وزارت خزانہ نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے توانائی منصوبوں کے بقایا جات کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے پاور سیکٹر کے لیے 975 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی کی تجویز دی ہے جو مطلوبہ رقم سے 37 فیصد کم ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کے حکام کے اجلاس کے بعد وزارت خزانہ نے اگلے مالی سال کے لیے بجلی کی سبسڈی میں 975 ارب روپے سے زائد کی سفارش کی ہے۔ تجویز کردہ فنڈز زیادہ تر صارفین کی قیمت اور پیداواری لاگت کے درمیان فرق اور آزاد کشمیر کے لیے سبسڈیز کو پورا کریں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس وقت وزارت خزانہ نے پاور ڈویژن کی جانب سے سی پیک کے بقایا جات میں 200 ارب روپے کے مطالبے کو قبول نہیں کیا، تاہم وزارت نے سی پیک پاور پلانٹس کے موجودہ بجلی بل کے 87 فیصد تک کی ادائیگی کے لیے 48 ارب روپے دینے پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ سی پیک کے یہ بقایاجات پاک چین اقتصادی تعلقات کی راہ میں کاوٹوں میں سے ایک ہیں۔
مزید برآں وزارت خزانہ نے کوئٹہ الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (کیسکو) اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں دیکھی گئی نا اہلی کی وجہ سے نقصان کو برداشت کرنے کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا۔ کسان پیکج ، ایکسپورٹرز سبسڈیز اور وزارت توانائی کی نااہلیوں، جن کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومت سے بجلی کے واجب الادا بل وصول کرنے میں ناکامی ہوئی، کی تلافی کیلئے بھی فنڈز تجویز نہیں کئے گئے۔
وزارت توانائی نے اگلے مالی سال کے لیے بجلی کی سبسڈی کی مد میں 1.54 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا، جو اس سال کے نظرثانی شدہ بجٹ سے 70 فیصد زیادہ ہے۔ یہ مطالبہ حیران کن تھا کیونکہ حکومت نے سبسڈی کو کم کرنے اور گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے رواں مالی سال میں بجلی کے نرخوں میں دو بار اضافہ کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت میں مخلوط حکومت پہلے ہی بجلی کے نرخوں میں دو بار اضافہ کر چکی ہے۔ پہلے پچھلے سال جولائی اور پھر اس سال فروری میں یہ اضافہ کیا گیا تھا۔
مجوزہ سبسڈیز 563 ارب روپے یا 37 فیصد ہیں، جو وزارت توانائی کی جانب سے ابتدائی رقم کی طلب سے کم ہیں۔ تاہم پیش کردہ رقم 70 ارب روپے یا موجودہ مالی سال کے لیے پاور سیکٹر کی سبسڈیز سے 8 فیصد زیادہ ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ 975 ارب روپے کے اعدادوشمار ابھی تک حتمی نہیں ہیں۔ توقع ہے کہ یہ معاملہ وزیر خزانہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
تاہم فاٹا اور بلوچستان کے گھریلو اور زرعی صارفین کے لیے بجلی کی سبسڈی کے دعووں کے بارے میں شفافیت اور درستگی سے متعلق خدشات موجود ہیں۔ پاور ڈویژن نے سابق فاٹا کے علاقوں کے لیے 48 ارب روپے کی سبسڈی کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزارت خزانہ نے 25 ارب روپے کی پیشکش کی ہے، مزید 14 ارب روپے بجلی کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے پرعزم ہیں۔
چونکہ وفاق کے زیر انتظام علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا ہے اس لیے بجلی کی لامحدود سبسڈی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت علاقے کی معاشی ترقی میں کسی بھی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے اضافی لاگت بھی اٹھا رہی ہے۔
وزارت توانائی نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے قیمتوں میں فرق کی سبسڈی کے طور پر 164 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزارت خزانہ نے 150 ارب روپے کے فنڈ دینے کا عندیہ دیا ہے۔
اس کے علاوہ کے۔ الیکٹرک کے صارفین کے لیے سبسڈی کی لاگت اٹھانے کے لیے 170 ارب روپے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے الیکٹرک کے صارفین کے لیے وزیراعظم کے انڈسٹریل سپورٹ پیکیج کے بقایا جات کو سیٹل کرنے کیلئے آئندہ مالی سال میں 7 ارب روپے کی ادائیگی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ نے ٹیوب ویلوں کی مد میں کیسکو کے لیے خصوصی سبسڈی کے طور پر مانگے گئے 195 ارب روپے کا وعدہ نہیں کیا۔ اس نے ڈسٹری بیوشن کمپنی کی نااہلی کی لاگت کے لیے کسی فنڈز کا بھی اشارہ نہیں کیا۔ پاور ڈویژن نے صارفین سے کم وصولیوں کی وجہ سے قیمتوں میں فرق کی سبسڈی کے طور پر 65 ارب روپے مانگے ہیں۔
وفاقی حکومت زرعی ٹیوب ویل کی سبسڈی میں اپنا حصہ ادا کر رہی ہے لیکن وزارت توانائی ڈسٹری بیوشن کمپنی میں کارکردگی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
وزارت نے آزاد کشمیر کے صارفین کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے 102 ارب روپے بھی مانگے جو پہلے ہی انتہائی رعایت بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ وزارت توانائی ملک کے دیگر حصوں میں لاگو آزاد کشمیر صارفین سے بجلی کے نرخ وصول کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ تاہم وزارت خزانہ نے صرف 55 ارب روپے تجویز کیے ہیں۔ آزاد کشمیر کی سبسڈی کے لیے 62 ارب روپے کے ایک اور مطالبے کے برعکس وزارت خزانہ کی جانب سے 25 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ وزارت توانائی نے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے بلوں کا بیک لاگ دور کرنے کے لیے 47 ارب روپے کی سبسڈی کا مطالبہ کیا تھا۔ وزارت خزانہ نے یہ فنڈز دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تین سال پرانے معاہدے کے تحت نجی پاور پروڈیوسرز کے واجبات کی ادائیگی کے لیے 262 ارب روپے کی سبسڈی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔