جعلی اکائونٹس کیس میں نامزد اماراتی سرمایہ کار نے سُمٹ بینک کے 51 فیصد شئیرز خرید لیے

322

لاہور: صرف چند ماہ قبل ہی سُمٹ بینک (Summit Bank) نے پہلی بار مکمل اسلامی بینک میں تبدیلی اور سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے اسلامک بینکاری کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔

اَب متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے سرمایہ کار عبداللہ حسین لوطا نے باضابطہ طور پر سُمٹ بینک کے 51 فیصد شیئرز خرید لیے ہیں۔ یہ پیشرفت اُس وقت ممکن ہوئی جب بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 3 ارب 80 کروڑ نئے شئیرز جاری کیے جو انہوں (لوطا) نے سُمِٹ بینک میں 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے حاصل کر لیے۔

اماراتی سرمایہ کار کی طرف سے اس حصول کو حال ہی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے منظور کیا ہے۔

لیکن سُمٹ بینک اور درحقیقت پاکستان کے ساتھ عبداللہ حسین لوطا کا تعلق کسی طور بھی نیا نہیں۔ ان کا نام وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیسز کی تحقیقات میں براہ راست سامنے آیا تھا۔

جولائی 2018ء میں ایف آئی اے نے 13 کمپنیوں کے خلاف مبینہ طور پر 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات کے دوران سٹیٹ بینک سے سمٹ بینک کی ایکویٹی اور مذکورہ فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے سی ای اوز کے ناموں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

جے ایس بینک اسلامی کے اقلیتی شئیر ہولڈرز کو نقد رقم میں ادائیگی کیلئے تیار

حکومت گلگت بلتستان کو غیر فعال بینک اکائونٹس سے ایک ارب روپے مل گئے

سِلک بینک کو افریقی بینک کے بعد ایک اور سرمایہ کار مل گیا، 12 ارب کی سرمایہ کاری متوقع  

ان الزامات میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے نام بھی آئے تھے۔ لوطا اس کیس میں مرکزی ملزم تھے۔ ایف آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست عبداللہ لوطا کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی جو اُس وقت سمٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین تھے۔

جعلی اکاؤنٹس کیس میں 5 بینکوں میں کھولے گئے 32 اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ شامل ہے۔ ان اکائوئنٹس میں سے 15 سمٹ بینک میں کھولے گئے تھے۔ ڈان اخبار کے ایک مضمون کے مطابق ’’لوطا نے اُن مشکوک ٹرانزیکشنز سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا کیونکہ ان کے اکاؤنٹ میں 7 ارب روپے منتقل ہوئے تھے۔‘‘

ایف آئی اے کی مشہورِ زمانہ جعلی اکائونٹس تحقیقات کے بعد سمٹ بینک کو خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بینک 2018 اور 2019ء میں مالیاتی رپورٹس جاری کرنے میں ناکام رہا جس پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان سٹاک ایکسچینج نے اسے ڈیفالٹرز میں شامل کر دیا تھا۔ سٹاک ایکسچینج میں تنزلی کے بعد سمٹ بینک نے 2020ء میں اپنے 2018ء کے مالیاتی اعدادوشمار جاری کیے لیکن مسلسل تیسرے سال سالانہ اجلاس بلانے میں ناکام رہا۔

منی لانڈرنگ سکینڈل آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا تو شائد کچھ نہ بگاڑ پایا لیکن سمٹ بینک کو سٹیٹ بینک کی طرف سے مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ریگولیٹری تقاضے پورے نہیں ہو رہے تھے۔ الٹا یہ زیادہ ظاہر ہوا کہ سمٹ بینک نے جان بوجھ کر اپنا سر ریت میں پھنسا رکھا ہے اور منی لانڈرنگ سکینڈل سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2021ء کے اواخر میں سمٹ بینک نے تین سال کی مالیاتی رپورٹس جاری کیں تاہم اس کا تشخص خراب ہی رہا۔

سمٹ بینک نے گزشتہ دس سالوں میں کبھی بھی منافع نہیں کمایا۔ ماسوائے 2014ء اور 2015ء کے جب بعد از ٹیکس اس نے بالترتیب 21 کروڑ 70 لاکھ روپے اور 23 کروڑ روپے منافع کمایا۔

اکتوبر 2021ء میں جاری ہونے والے 2019ء کے مالیاتی اعدادوشمار میں بینک نے اپنا سب سے بڑا نقصان 9.4 ارب روپے رپورٹ کیا لیکن یہ پچھلے سال کے 8.7 ارب روپے کے نقصان سے کچھ زیادہ ہی تھا۔

تین برس کی صحرا نوردی  کے بعد ایسا لگتا تھا کہ سمٹ بینک مرکزی دھارے میں واپس آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مالیاتی رپورٹس دیر سے آئی تھیں۔ ان تمام چیزوں کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج نے بھی اسے ڈیفالٹرز سیگمنٹ سے  نکال کر ’’نارمل کاؤنٹر‘‘ پر منتقل کر دیا ہے۔ یعنی بینک کے شئیرز ایک بار پھر کاروبار کیلئے تیار ہیں۔

تاہم مئی 2022 میں پرافٹ کے سابق ایڈیٹر اور سینئر صحافی خرم حسین نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’’حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ سُمٹ بینک اور ایک اور بینک مارچ 2023ء تک اپنے ری کیپیٹلائزیشن پلان کا پہلا مرحلہ مکمل نہیں کرتے تو دونوں بینکوں کو مئی 2023ء تک یا تو جبری طور پر ری سٹرکچر کیا جائے گا یا پھر 2015ء میں کسب (KASB) بینک کی طرح فروخت کر دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: 

بینک آف پنجاب بھی اسلامی بینک بننے جا رہا ہے، مگر کیوں؟

ایم سی بی بینک نے عارف حبیب سیونگز کے 30 فیصد شیرز خرید لئے

ڈیجیٹل بینکنگ اپنا راستہ ضرور بنا رہی ہے مگر فی الحال کاغذی نوٹ ہی غالب ہیں، کیوں؟

دراصل سُمٹ بینک کا اسلامی بننے کا فیصلہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے اسلامی بینکاری کے حالیہ رجحان کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ 28 اپریل کو وفاقی شریعہ کورٹ نے عرصے سے زیر التوا مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مروجہ سود پر مبنی بینکاری نظام کو خلافِ شریعت قرار دے دیا اور حکومت کو حکم دیا کہ وہ سود سے پاک قرضے فراہم کرے۔ عدالت نے حکومت کو ملک میں اسلامی بینکاری کے نفاذ کے حوالے سے پانچ سال کے اندر قانون سازی کرنے کی بھی ہدایت کی۔

سُمٹ بینک کے لیے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی بینکنگ کے راستے پر جانا ہی اس کے چھٹکارے کا واحد راستہ تھا۔ اپنی سابقہ بُری ​​ساکھ کو بحال کرنے اور ملک میں مالیاتی خدمات کی مانگ کیلئے بہتر طور پر ثابت کرنے کیلئے ہی شاید سمٹ بینک نے 2 جنوری 2023ء کو اپنے ارادوں کا اعلان کیا۔

واضح  رہے کہ سُمٹ بینک کی اس وقت 195 برانچیں ہیں جن میں سے 50 پہلے ہی اسلامک بینکنگ کے تحت ہیں۔ اس کے اثاثے اور ڈپازٹس بالترتیب 23 ارب اور 20 ارب روپے تھے۔ بینک اپنے روایتی بینک کی نئی شاخیں نہیں کھول رہا بلکہ اپنی قائم کردہ شاخوں کو اسلامی بینکاری میں تبدیل کر رہا ہے۔ بینک کے اسلامی بینکنگ ڈویژن نے ستمبر 2022ء کے اواخر تک 55 کروڑ 10 لاکھ  کا نفع کمایا- بینک کے مایوس کن مالیاتی نتائج کو دیکھیں تو یہ ایک امید کی کرن ہے۔

یقیناً بینک کیلئے یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ شریعت کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی طرف بڑی تبدیلی دیکھی گئی تھی۔ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار اور ملک کے ہر ایک بینک کے مالیاتی گوشواروں کے منافع کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2002ء اور 2019ء کے درمیان خالص نئے ڈپازٹس میں اس کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔ اور تب سے یہ عروج کی جانب ہی گامزن ہے۔

اسلامی بینکاری کے اثاثے جون 2022ء کے اختتام تک کل اثاثوں کے تقریباً 19.5 فیصد تک پہنچ گئے جبکہ ڈپازٹس کا حصہ 20.5 فیصد تک پہنچ گیا۔ جون 2022ء کے اواخر تک اسلامی بینکاری اداروں کے اثاثوں اور ڈپازٹس میں بالترتیب سالانہ 41.4 فیصد اور 27.0 فیصد کا اضافہ ہوا۔

ملک میں اس وقت 22 اسلامی بینکنگ ادارے (IBIs) ہیں جن کے برانچ نیٹ ورک میں 4 ہزار 86 شاخیں ہیں جو شریعت کے مطابق بینکنگ خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اسلامی بینکنگ انسٹی ٹیوشنز میں پانچ مکمل اسلامی بینکاری اور روایتی بینکوں کی 17 اسلامی بینکاری ونڈوز شامل ہیں۔

اسلامی بینکاری کے اثاثے جون 2022 کے اختتام تک کل اثاثوں کے تقریباً 19.5 فیصد تک پہنچ گئے، جبکہ ڈپازٹس کا حصہ 20.5 فیصد تک پہنچ گیا۔ سالانہ بنیادوں پر جون 2022ء کے آخر تک اسلامی بینکاری اداروں کے اثاثوں اور ڈپازٹس میں بالترتیب 41.4 فیصد اور 27.0 فیصد کا اضافہ ہوا۔

سمٹ بینک نے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ’’سرمایہ کاری کے حصول اور اسلامی مالیاتی اصولوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ بینکنگ انڈسٹری میں مارکیٹ لیڈر بننے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے۔ بینک کی قیادت اور عملہ بینک کے مستقبل کے بارے میں پرجوش ہے اور اپنے کلائنٹس کو اخلاقی اور شفاف مالی خدمات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here