اسلام آباد: حکومتِ گلگت بلتستان نے 300 سے زائد ایسے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے جو سالوں سے غیر فعال تھے اور جن میں ایک ارب روپے سے زائد رقم موجود تھی۔
سرکاری طور پر ظاہر کی گئی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے محکمہ خزانہ کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ سرکاری پبلک اکاؤنٹس میں 600 سے زائد ایسے اکاؤنٹس رجسٹرڈ نہیں تھے جن میں رقم موجود تھی۔
محکمہ خزانہ نے غیر رجسٹرڈ اکاؤنٹس کے مالکان کی شناخت کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ سٹیٹ بینک کی فراہم کردہ معلومات سے پتا چلا کہ 300 سے زائد اکاؤنٹس دو سالوں سے زائد عرصے سے غیر فعال تھے۔
مزید تفتیش کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ ان اکاؤنٹس میں ایک ارب روپے سے زائد کے پبلک فنڈز موجود تھے۔ کچھ اکاؤنٹس 1984ء میں کھولے گئے تھے اور یہ واضح تھا کہ چار دہائیوں سے کسی کی ان پر نظر نہیں پڑی۔ محکمہ خزانہ نے محسوس کیا کہ عوامی فنڈز کی اتنی بڑی رقم کو بے حساب نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس نے فوری کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین احمد وانی نے عوامی فنڈز کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سیکریٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ان غیر مجاز اکاؤنٹس کو بند کرنے اور رقوم کی واپسی کے لیے رابطہ کریں۔ یہ رقم جی بی کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں واپس کی جائے گی اور اسے عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق محکمہ خزانہ ان غیر مجاز کھاتوں کو بند کرنے اور عوامی رقوم کی واپسی میں کامیاب رہا۔ اب یہ فنڈز عوامی منصوبوں جیسا کہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور دیگر عوامی خدمات میں استعمال کے لیے دستیاب ہیں جن سے گلگت بلتستان کے لوگ مستفید ہوں گے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کو وفاقی حکومت کی طرف سے سالانہ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے محدود گرانٹ ملتی ہے۔ ایسے میں مذکورہ اکائونٹس میں موجود رقم سے لاعلمی رکھنا اور اسے استعمال میں نہ لانا متعلقہ محکموں کی غفلت تھی۔