برطانوی حکومت 2030ء تک ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سُپر پاور بنانا چاہتی ہے۔ اس کیلئے لندن سے پچاس میل دور آکسفرڈ اور کیمبرج کے درمیان سیلیکون ویلی کی طرز پر ٹیکنالوجی ویلی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اِن دو برطانوی شہروں کے درمیانی علاقے میں 9 یونیورسٹیاں، کئی ٹیکنالوجی پارک، سائنس سینٹر اور یورپ کی سب سے زیادہ چار سو بائیو ٹیک کمپنیاں قائم ہیں۔ کورونا کے خلاف پہلی ویکیسن آکسفرڈ آسٹر زینیکا (Oxford-Astra Zeneca) بھی اسی علاقے میں قائم آسٹرا زینیکا نامی بائیو میڈیکل کمپنی نے بنائی۔ برطانیہ میں پیٹنٹس (patents) رجسٹریشن کی سب سے زیادہ درخواستیں اسی علاقے سے موصول ہوتی ہیں۔
اس لیے برطانوی حکومت چاہتی ہے کہ اس علاقے کو سیلیکون ویلی میں تبدیلی کر دیا۔ لیکن یورپی یونین سے نکلنے کے بعد محض سات سالوں میں تن تنہا ٹیک سپر پاور بننا شائد برطانیہ کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کیلئے بڑی تعداد میں ٹیکنالوجی کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہو گی جو اسے اپنے ملک میں تو میسر نہیں۔
تاہم ایک ملک ہے جو برطانیہ کو اگلی ٹیک سُپر پاور بننے میں مدد کر سکتا ہے اور وہ ہے بھارت۔
بھارت ایک سو سے زائد یونی کارن (unicorns) اور ہزاروں سٹارٹ اپس کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا سٹارٹ اَپ ایکو سسٹم چلا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی میں تربیت یافتہ افرادی قوت ضرورت سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا بھر میں خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ گوگل سمیت کئی بڑی ٹیک کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز (سی ای اوز) بھارتی ہیں۔
فروری 2023ء میں برطانوی وزیر خزانہ جیریمی ہنٹ (Jeremy Hunt) نے بھارتی سیلیکون ویلی سمجھے جانے والے بنگلورو میں جی 20 کے وزرائے خزانہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس دوران مسٹر ہنٹ نے بھارتی کمپنیوں کے سربراہان اور بانیان سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں برطانوی حکومت کے ٹیک سُپر پاور بننے کے خواب سے آگاہ کیا۔
ٹیک سپر پاور بننے کیلئے برطانیہ کو دو چیزوں کی ضرورت ہے۔
1۔ ٹیکنالوجی کے اعلیٰ تربیت یافتہ ذہن
2۔ سرمایہ کاری
جب ٹیک ٹیلنٹ کی بات ہوتی ہے تو بھارت اس کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔ رواں سال بھارت آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ ہر ماہ تقریباََ دس لاکھ نوجوان بھارت کی افرادی قوت کا حصہ بن رہے ہیں اور ایک ارب 40 کروڑ آبادی کا 65 فیصد 35 سال سے کم عمر ہے۔ کئی سروے نتائج بتاتے ہیں کہ بھارتی نوجوانوں کی اکثریت اَب نوکریاں ڈھونڈنے کی بجائے اپنے کاروبار اور سٹارٹ اَپ شروع کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا دبئی ٹیکنالوجی کا اگلا عالمی مرکز بننے جا رہا ہے؟
بھارت میں مینوفیکچرنگ کے بعد ایپل کا ریٹیل سٹور بھی کھل گیا، پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟
2022ء میں برطانیہ بھارت کا 12واں بڑا تجارتی شراکت دار تھا اور دونوں ملکوں کا باہمی تجارتی حجم 34 ارب پائونڈ رہا جبکہ دونوں ممالک آزادانہ تجارتی معاہدہ کرنے پر بھی آمادہ ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ واحد ملک نہیں جسے غیرملکی ٹیک ٹیلنٹ کی ضرورت ہے بلکہ یورپین کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دس یورپی نوجوانوں میں سے چار ایسے ہیں جن کے پاس ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل مہارتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے پورے یورپ کو دنیا بھر سے ٹیکنالوجی کی ماہر افرادی قوت کی تلاش ہے۔
2023ء کے آغاز میں جرمن چانسلر نے دورہ بھارت کے دوران کہا تھا کہ سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ کے شعبے میں بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے وہ بھارتی ٹیک ورکرز کیلئے جرمنی کے ویزے آسان کر رہے ہیں۔
لیکن برصغیر اور خاص طور پر بھارت سے تربیت یافتہ ورکرز کا برطانیہ جانا اُن ممالک میں جانے کی نسبت قدرے مشکل ہے جو ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ بھارتی ٹیک ورکرز کو برطانیہ میں داخلے کیلئے کم از کم دس ہزار ڈالر چاہییں جبکہ دیگر ممالک کیلئے یہ اخراجات اوسطاََ ڈیڑھ ہزار ڈالر تک ہوتے ہیں۔
رواں سال برطانوی حکومت نے ایک سکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تین ہزار بھارتی ٹیک ورکرز کو دو سال کیلئے کام کی اجازت دی جائے گی۔
لیکن امیگریشن برطانوی سیاست میں سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والا موضوع ہے اور ٹیک سُپر پاور بننے کیلئے غیرملکی ٹیک ورکرز پر انحصار کرنے کا برطانوی حکومت کا تصور بھی اسی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ تنقید کرنے والوں میں برطانوی سیکریٹری داخلہ سوئیلا بریورمین (Suella Braverman) بھی شامل ہیں۔ اُن کا اعتراض ہے کہ برطانیہ ٹیکنالوجی میں ترقی کیلئے تارکین وطن ورکرز پر انحصار کیوں کرے اور اُن پر ہی سرمایہ کاری کیوں کرے جبکہ وہ اپنے سکولوں اور کالجوں کے طلباء کو ڈیجیٹل سکلز سکھا کر کچھ سالوں میں اِس قابل بنا سکتا ہے۔
حیران کن طور پر 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں برطانیہ میں مائیکرو کمپیوٹر ایجاد کیے گئے اور امریکی کمپنیوں ایپل اور زوریکس (Xerox) سے بھی پہلے ونڈوز کو برطانیہ میں استعمال کیا گیا لیکن آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینی ڈورلنگ (Danny Dorling) کہتے ہیں کہ اَب سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور اسے امریکا کی جارحانہ مارکیٹنگ، اجارہ داری اور چالاکی نے ختم کیا۔
حالیہ سالوں میں یورپی یونین نے امریکی ٹیک کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے کئی قوانین متعارف کرائے ہیں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت اور تحقیق کیلئے ہورائزن یورپ (Horizon Europe) کے نام سے 95 ارب پائونڈ کی خطیر رقم سے ایک منصوبہ بھی شروع کیا ہے لیکن بریگزٹ کی وجہ سے برطانیہ 95 ارب پائونڈ کے اس تحقیقی منصوبے کا حصہ نہیں ہو گا۔
تاہم ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری میں برطانیہ اب بھی اپنے یورپی حریف ممالک جرمنی اور فرانس سے آگے ہے۔ برطانوی ٹیک انڈسٹری کی مجموعی مالیت تقریباََ ایک کھرب ڈالر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ اپنی مجموعی مالیت کے لحاظ سے امریکا اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی صنعت ہے۔
2022ء میں برطانوی کمپنیوں نے ساڑھے 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جمع کی جو جرمن اور فرانسیسی کمپنیوں میں ہونے والی مجموعی سرمایہ کاری سے زیادہ تھی۔
لیکن آخر میں سوال پھر وہی ہے کہ برطانیہ کس طرح بڑی ٹیک کمپنیاں کھڑی کر سکتا ہے جو اِس کی مجموعی قومی پیداوار میں ویسے ہی حصہ ڈالیں جیسے گوگل اور ایپل جیسی کمپنیاں امریکا کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
یقیناََ برطانیہ 2030ء تک سلیکون ویلی بنا کر ٹیک سپر پاور بن سکتا ہے اور اس کیلئے اہم کردار ہو گا بھارت جیسے ملک کا جہاں ایک مضبوط سٹارٹ اَپ اور ٹیک ایکو سسٹم پہلے سے موجود ہے اور جہاں ٹیک ورکرز ضرورت سے زائد ہیں جو کسی دوسرے ملک کو بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں سُپر پاور بنا سکتے ہیں۔