اسلام آباد: پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز (پی اے ایل ایس پی) کے مطابق ایران اور افغانستان سے سالانہ 5 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد سٹیل سمگل کر کے پاکستان لایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ناصرف مقامی انڈسٹری برباد ہو رہی ہے بلکہ قومی خزانے کو بھی سالانہ تقریباََ 25 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
ایسوسی ایشن نے ایران اور افغانستان سے سٹیل کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ اور قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔
وزیراعظم کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی، مالی اخراجات اور پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ کی وجہ سے سٹیل انڈسٹری پہلے ہی سنجیدہ نوعیت کے مسائل سے دوچار تھی۔ ایسے میں سمگل شدہ سٹیل کا غیر قانونی دھندہ پاکستان کی مقامی صنعت کو تباہ کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ خام مال کی قلت کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں رُک گئی ہیں اور بہت سی سٹیل ملیں اپنی صلاحیت سے کم سطح پر کام کر رہی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آٹو موبائل سے لے کر سمارٹ فونز تک بہت سی قیمتی مصنوعات بنانے والی صنعتوں کے لیے سٹیل ایک اہم خام مال ہے۔ سٹیل کی سمگلنگ ناصرف حکومت کی آمدن کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ پاکستان کی صنعتی ترقی کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ایران و افغانستان سے سٹیل کی بے تحاشہ سمگلنگ کی وجہ سے صورت حال بہت خراب ہو چکی ہے جس پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکی اور یہ دھندہ منظم انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مذکورہ دونوں ممالک سے سالانہ تقریباً 5 لاکھ میٹرک ٹن سٹیل پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی کل سٹیل کا 10 فیصد ہے۔ اس سے قومی خزانے کو سالانہ 25 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ منی لانڈرنگ سے منسلک مسائل کا باعث بھی بن سکتا ہے جو پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں نئے مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں۔
بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سٹیل ایران سے سمگل شدہ، لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں فروخت ہونے کا انکشاف، منظم جرم ملک کو ڈی انڈسٹریلائزیشن کی طرف دھکیلنے لگا
پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز کے مطابق سمگلنگ کی وجہ سے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں سٹیل کی مقامی صنعت تقریباََ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سٹیل ایران سے سمگل ہو کر یا بغیر کسی ڈیکلئریشن، انڈر انوائسنگ اور دیگر ذرائع سے آتا ہے۔ یہ منظم جرم پاکستان کو ڈی انڈسٹریلائزیشن کی طرف دھکیل رہا ہے۔ کوئی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے سمگل شدہ سٹیل صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں تک پہنچ رہا ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز نے خط کے ساتھ مارچ 2023ء میں لاہور میں پکڑے گئے ایرانی سمگل شدہ سٹیل کے ٹرکوں اور اپریل میں چمن بارڈر سے افغانستان سے سمگل ہو کر آنے والے سٹیل بارز کے تصویری ثبوت بھی پیش کئے ہیں۔ محکمہ کسٹمز نے ان کے خلاف پہلے ہی ایف آئی آر درج کر رکھی ہیں۔
ایسوسی ایشن نے متعلقہ سرکاری محکموں سے اپیل کی ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے اس غیر قانونی سرگرمی کو روکیں۔ انہوں نے ماضی میں تجویز دی تھی کہ سٹیل کی درآمد کی اجازت صرف سمندری راستوں سے دی جانی چاہیے جس سے سمگلنگ کو روکنے میں مؤثر طریقے سے مدد ملے گی۔