چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اربوں ڈالر کے غیرفعال قرضوں کے بوجھ تلے دبنے لگا

889

لاہور: چین کا ایک کھرب ڈالر کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) انفراسٹرکچر فنانس پروگرام غیرفعال قرضوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے جس میں گزشتہ تین سالوں میں 78 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے چین کیلئے کافی گھمبیر صورت حال پیدا کر چکے ہیں۔

بین الاقوامی معاشی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بی آر آئی نے چین کو دنیا کا سب سے بڑا قرض دہندہ بنا دیا ہے اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ بیجنگ اور اس کے بڑے بڑے بینکوں کیلئے فنانشل سنگِ میل بن چکا ہے۔

 تاہم رپورٹ میں نیویارک کی روڈیم گروپ نامی ایک ریسرچ آرگنائزیشن کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2020ء سے لے کر مارچ 2023ء تک دنیا بھر میں سڑکوں، ریلویز، بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور بنیادی ڈھانچے کے دیگر منصوبوں کیلئے چینی مالیاتی اداروں کی جانب سے تقریباً 78.5 ارب امریکی ڈالر کے قرضوں پر نظرثانی کی گئی یا ان میں کمی کی گئی۔

یہ رقم 17 ارب ڈالر کے اُن قرضوں سے چار گنا زیادہ ہے جن پر 2017ء سے 2019ء کے آخر تک نظرثانی کی گئی۔

امریکہ میں ولیم اینڈ میری یونیورسٹی میں “ایڈ ڈیٹا” (Aid Data) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریڈ پارکس (Brad Parks) کے مطابق ’اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ پچھلی دہائی کے دوران بی آر آئی کے تحت کتنے ارب ڈالر کا قرضہ مختلف ممالک کو دیا گیا لیکن اندازہ ہے کہ یہ مجموعی طور پر ایک کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہو گا۔‘

مزید برآں چین بی آر آئی پر دستخط کرنے والے 150 ممالک میں سے بڑے قرض داروں کو دیوالیے (Sovereign defaults) سے بچانے کیلئے بھی بڑی مقدار میں ’’ریسکیو لون‘‘ جاری کر چکا ہے۔

جریدے کے مطابق سن 2000ء سے 2021ء تک دو عشروں کے دوران عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کئی ترقی پذیر ممالک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے بیل آؤٹ کی مد میں مجموعی طور پر تقریباََ 240 ارب ڈالر کے قرضے دیے گئے۔ اس کے برعکس ایڈ ڈیٹا، ورلڈ بینک، ہارورڈ کینیڈی سکول اور کیل انسٹی ٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی کے محققین کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق چین کی جانب سے اپنے قرض دار ملکوں کو 2019ء سے 2021ء تک محض تین سالوں میں 104 ارب ڈالر ’ریسکیو لون‘ یا بیل آؤٹ کی مد میں جاری کیے گئے۔

بی آر آئی قرضے لینے والے زیادہ تر وہ ممالک ہیں جو عالمی ترقی کی سست روی، بڑھتی ہوئی شرح سود اور اپنے بلند ترین قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ اس دوران مغربی قرض دینے والے ادارے چین پر الزام عائد کرتے رہے کہ وہ اُن ممالک کے قرضوں کی تنظیم نو (re-structuring) میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔

زیادہ تر بی آر آئی قرضوں پر نظرثانی 2020ء اور 2021ء میں کورونا وباء کے عروج کے زمانے میں کی گئی تاہم 2022ء میں یہ رفتار قدرے سست پڑ گئی۔

روڈیم کے سینئر تجزیہ کار میتھیو مِنگی (Mathew Mingey) کے مطابق ’بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ پاکستان جیسے چین کے بڑے بڑے قرض دار آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے بھی بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم اَب بی آر آئی میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین ترقی پذیر دنیا کے لیے اپنی سیاسی اور سفارتی تعلقات بڑھا رہا ہے جو بی آر آئی کی اہمیت کو ممکنہ طور پر کم کر رہا ہے۔‘

معاشی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021ء کے بعد سے چینی صدر شی نے تین سٹریٹجک اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد عالمی سطح پر طرز حکمرانی کو از سر نو تشکیل دینا اور مغرب کے زیر قیادت مالیاتی اداروں کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی مالیاتی امور میں پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے۔

چین اپنے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو کیلئے بین الاقوامی حمایت حاصل کر رہا ہے تاہم یہ بات غور طلب ہے کہ زیادہ تر ممالک جو چین کے وژن کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین کے مقروض بھی ہیں لیکن کہلاتے چین کے ’دوست‘ ممالک ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here