اسلام آباد: حکومت کی طرف سے سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے غیر قانونی سگریٹ کی فروخت شروع ہو گئی جو پاکستانی تمباکو کی صنعت کیلئے بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی (پی ٹی سی) کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی ٹوبیکو کمپنی فلپ مورس نے بھی سگریٹ کی سمگلنگ اور غیر قانونی فروخت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فلپ مورس (پاکستان) کے چیف فنانشل آفیسر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد ذیشان کے مطابق قانونی سگریٹ پر ٹیکسوں میں بڑے اضافے کی وجہ سے سمگلنگ اور غیر قانونی سگریٹ کی فروخت میں بڑھی ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی طور پر انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے اور فلپ مورس ان مشکل حالات میں پختہ عزم کے ساتھ پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ ضمنی بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔ سگریٹ پر پہلے ہی بہت زیادہ ٹیکس عائد تھا جبکہ ضمنی بجٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی مزید بڑھانے سے سیگریٹ کی غیرقانونی فروخت میں اضافہ ہو گیا۔
رواں مالی سال فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تین بار اضافہ کیا گیا ہے، جس میں سب سے حالیہ اضافہ فروری میں 150 فیصد ہوا جس سے سگریٹ پر مجموعی ایکسائز ڈیوٹی 200 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایکسائز ڈیوٹی میں اس نمایاں اضافے کے اثرات قانونی سگریٹ انڈسٹری پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور حکومت کو خود اس اقدام کے منفی اثرات کا سامنا سگریٹ سے ٹیکس ریونیو میں کمی کی صورت میں کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے: فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 154 فیصد اضافہ سے سگریٹ کی سمگلنگ 39 فیصد بڑھ گئی
محمد ذیشان نے بتایا کہ پاکستان میں جب بھی قانونی سگریٹ پر ٹیکس بڑھتا ہے تو غیر قانونی سگریٹ کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔ سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانونی سگریٹ کی فروخت میں 50 فیصد کمی آئی ہے جبکہ ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے سے غیر قانونی سگریٹ کو فائدہ پہنچا ہے۔ ایکسائز میں اضافے سے پہلے غیر قانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر 35 سے 38 فیصد کے درمیان تھا لیکن اب صرف ایک ماہ میں 45 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
اگر حکومت نے بروقت مناسب اقدامات نہ کیے تو حصہ 50 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ قانونی صنعت نے کبھی بھی ٹیکس یا ایکسائز کی مخالفت نہیں کی۔ تاہم اتنا زیادہ اضافہ قانونی صنعت اور خود حکومت کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ ایکسائز ڈیوٹی میں حالیہ بے تحاشہ اضافے نے قانونی اور غیر قانونی سگریٹ کی قیمتوں میں فرق کو دُگنا کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غیر قانونی فروخت میں تیزی سے اضافے سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ حکومت تمباکو کی صنعت سے ٹیکس وصولی کا 260 ارب روپے کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گی۔
سگریٹ کی قانونی فروخت میں کمی کے نتیجے میں 170 ارب روپے کی معمولی وصولی ہو گی جس کا اندازہ حکومت مارچ میں جمع کیے گئے ٹیکسوں کا تجزیہ کرکے آسانی سے لگا سکتی ہے۔ مزید برآں ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کے بعد غیر قانونی تمباکو کی فروخت میں اچانک اضافے کے نتیجے میں ٹیکس وصولی کے ہدف میں 90 ارب روپے کی کمی کا امکان ہے۔
پاکستان ملائیشیا کے بعد غیر قانونی سگریٹ کی فروخت کے لحاظ سے ایشیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ ملائیشیا کا اس وقت غیر قانونی سگریٹ کی مارکیٹ میں 50 فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان کا حصہ 40 فیصد ہے۔ تاہم ایسے خدشات موجود ہیں کہ پاکستان ملائیشیا کو پیچھے چھوڑ کر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں حالیہ اضافے کی وجہ سے ایشیا کا سرفہرست ملک بن سکتا ہے۔
چیف فنانشل آفیسر فلپ مورس نے کہا کہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کو روکے بغیر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ کبھی بھی کارگر ثابت نہیں ہو گا کیونکہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ منظم اور قانونی سگریٹ انڈسٹری برداشت کر رہی ہے جو پہلے ہی سے تمباکو انڈسٹری سے اکٹھے کیے گئے ٹیکسوں کا 98 فیصد حصہ ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ قوانین کو پوری صنعت پر یکساں لاگو کرے، تمام کمپنیوں میں ٹریک اینڈ ٹریس کا سسٹم نافذ کرے اور ایسا کاروباری ماحول فراہم کرے جس میں ٹیکس ادا کرنے والی منظم صنعت ترقی کر سکے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ سے غیر قانونی سگریٹ کو قانون کے دائرے میں لانے میں مدد مل سکتی ہے اور حکومت بھی ریونیو خسارے کو زیادہ آسانی سے پورا کر سکتی ہے۔