پاکستان سیاسی و معاشی بدحالی کی وجہ سے “زومبی سٹیٹ” بننے کے خطرے سے دوچار

374

“زومبی” بینکوں کی اصطلاح اپنا وجود برقرار رکھنے کے حوالے سے مشکلات سے دوچار بینکوں اور کمپنیوں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جو مالی طور پر کمزور ہو چکے ہوں لیکن بار بار حکومتی بیل آؤٹ کے ذریعے ان وجود برقرار رکھا جاتا ہو۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسے “زومبی” ممالک بھی ہو سکتے ہیں جو کہنے کو تو آزاد اور خودمختار ہوں لیکن یہ آزادی اور خود مختاری صرف کاغذی اور برائے نام ہو۔ ایسے ممالک کو تباہ حال معیشت اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کے ساتھ کئی قسم کے داخلی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ صرف دوست ممالک سے مالی امداد کے ذریعے اپنی درآمدی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ آبادی کا ایک اہم حصہ بدعنوان، خود غرض اشرافیہ سے تنگ آ چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کاروباری اور متمول افراد اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر لیتے ہیں۔ لبنان ایسی ہی ایک ناکام ریاست کی مثال ہے جبکہ پاکستان بھی ایک ناکام ریاست بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔

اپریل 2022ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ریاست کے داخلی تضادات اور پے در پے واقعات پاکستان میں سیاسی، معاشی، سماجی اور ادارہ جاتی انتشار اور بگاڑ میں تیزی لانے کا سبب بنے ہیں۔ ایسا لگتا ہے سیاسی نظام کی گاڑی بغیر پہیوں کے چل رہی ہے، معیشت کو کوئی سہارا میسر نہیں۔ بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے، سرمائے کی بیرون ملک اڑان جاری ہے، پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں، کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔

معاشی بحران اَب پاکستان کے بینکوں کی طرف بڑھ رہا ہے، غیر فعال قرضوں اور شرح سود میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے قرضوں اور سرمایہ کاری پر نقصانات کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بینکوں سے حکومت نے اتنا قرضہ اٹھا رکھا ہے جو بینکوں کے مجموعی قرضے کا تقریباً 70 فیصد بنتا ہے اور ان کے کل ڈپازٹس کا 92 فیصد ہے۔

لگ یہ رہا ہے کہ آئینی حکمرانی اور قانون کی حکمرانی کی طرف فوری واپسی ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ ایک قابل اعتماد اور غیر جانبدار سیٹ اَپ کے ذریعے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا بروقت انعقاد اور منتخب عوامی حکومت کو بغیر کسی رکاوٹ یا شرائط کے اقتدار کی منتقلی ان تمام  مسائل کو کم کر سکتی ہے جو اَب تک پیدا ہو چکے ہیں مگر یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ ہمیں در اصل کرنا کیا ہے اور یہ کہ جو بھی کرنا اس میں پہل کس کو کرنی ہے؟

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here