پاکستان رواں برس کے مالیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکے گا: آئی ایم ایف کی رپورٹ جاری

419

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان رواں مالی سال کے مالیاتی اور قرضوں میں کمی کے اہداف پورے نہیں کر سکے گا جبکہ آئندہ مالی سال میں بجٹ خسارہ ملک کے معاشی حجم کے 8.3 فیصد تک پہنچنے کے ساتھ صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔

فسکل مانیٹر کی رپورٹ، جو آئی ایم ایف کے حالیہ اجلاس کے موقع پر جاری کی گئی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان مالی سال 2022-23 اور مالی سال 2023-24 کے دوران بجٹ خسارے، مجموعی عوامی قرضوں، اخراجات اور ریونیو میں اضافے سے متعلق تمام اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔

آٹھ ماہ قبل بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 4.7 فیصد کے برابر رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جبکہ حالیہ  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال جون تک خسارہ 6.8 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ جی ڈی پی کو 2.1 فیصد یا ایک کھرب 80 ارب روپے کی کمی درپیش ہے جو موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔

اس سے  آئی ایم ایف کی 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (Extended Fund Facility) کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے جس کا مقصد مالی استحکام لانا اور قرضوں میں کمی لاتے ہوئے معیشت کو پائیدار راستے پر ڈالنا تھا۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 2023-24ء کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8.3 فیصد تک جا سکتا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 4 فیصد کے برابر رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔ آٹھ ماہ کے اندر آئی ایم ایف نے بنیادی بجٹ کے ہدف میں بڑے پیمانے پر گراوٹ ظاہر کی ہے۔

آئی ایم ایف کا ٹارگٹ تھا کہ 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت پاکستان بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا یعنی حکومتی آمدن سود ادائیگیوں کو چھوڑ کر اس کے اخراجات سے زیادہ ہو جائے گی اور اسی بجٹ سرپلس کی وجہ سے قرضوں میں کمی آئے گی۔

تاہم فسکل مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران کوئی اضافی آمدن حاصل کرنے کے بجائے پاکستان کا بنیادی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے کم از کم 0.5 فیصد کے برابر ہو گا۔ صرف آٹھ ماہ پہلے کے مقابلے میں، معیشت کے موجودہ متوقع سائز میں تقریباً 0.7 فیصد یا 600 ارب روپے کمی پیدا ہو گی۔

گزشتہ سال اگست میں آٹھویں جائزہ مذاکرات اس لیے طویل ہوئے کیونکہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کا معمولی بجٹ سرپلس حاصل کرنے کی یقین دہانی پر اصرار کیا۔ مگر اسے عملی صورت میں ڈھالا جا سکا۔ مالی سال 2023-24 کے لیے آئی ایم ایف نے تقریباً 0.6 فیصد سرپلس ہونے کے اس کے پرانے تخمینے  کے مقابلے میں معیشت کے سائز کے 0.4 فیصد کے بنیادی خسارے کا تخمینہ لگایا ہے۔

پاکستان کے معاشی اشاریے ایسے وقت میں خراب ہو رہے ہیں جب یہ دوسرے ممالک میں بہتری دکھا رہے ہیں۔ فسکل مانیٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کی وبا کے تین سال بعد مالیاتی پالیسی معمول پر آ رہی ہے۔ 2020ء میں بیک وقت غیرمعمولی امداد فراہم کرنے کے بعد 2022ء میں تقریباً تین چوتھائی ممالک میں افراط زر اور وبائی امراض سے متعلق اخراجات کے اقدامات کی میعاد ختم ہونے کے درمیان اقتصادی و مالیاتی پالیسی سخت ہو گئی اور یہ تبدیلی انتہائی غیر مستحکم ماحول میں ہوئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2020ء میں عالمی قرض میں جی ڈی پی کے تقریباً 100 فیصد تک تاریخی اضافے کے بعد معاشی سکڑاؤ اور بڑے پیمانے پر حکومتی تعاون کے نتیجے میں مالیاتی خسارے میں کمی آئی ہے۔ کیونکہ وبا سے جڑے غیر معمولی اقدامات ختم ہو چکے ہیں۔ 2021-22ء میں عالمی قرضے میں 70 سالوں میں سب سے زیادہ کمی واقع ہوئی اور 2022ء کے آخر میں جی ڈی پی کا تقریباً 92 فیصد رہا جو 2019ء کے مقابلے میں تقریباً 8 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا “ریونیو ٹو جی ڈی پی” تناسب بھی اس سے کم رہ سکتا ہے جس کا اندازہ پہلے لگایا گیا تھا۔ اب اس کا تخمینہ جی ڈی پی کا 12.2 فیصد ہے، جو آئی ایم ایف کے لیے بھی تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیوکہ اس کے پروگرام کے اہداف بھی حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ اگلے مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے محصولات کا تخمینہ جی ڈی پی کا صرف 12.5 فیصد لگایا ہے۔

اس کے مقابلے میں اخراجات پرانے تخمینوں سے کہیں زیادہ رہیں گے۔ رواں مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا ہے کہ اخراجات جی ڈی پی کے 19.1 فیصد تک بڑھ جائیں گے۔ اگلے مالی سال میں بھی صورت حال بہتر نہیں ہو گی کیونکہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اخراجات جی ڈی پی کے 20.8 فیصد تک بڑھ گئے ہیں جو معیشت کے موجودہ متوقع سائز پر کم از کم 3.4 کھرب روپے کے مارجن سے پہلے کے تخمینے سے زیادہ ہیں۔

ان خراب اشاریوں کے نتیجے میں رواں مالی سال کے اختتام تک مجموعی عوامی قرضہ جی ڈی پی کے 73.6 فیصد پر ظاہر ہوا ہے۔ جولائی 2019ء میں پروگرام پر دستخط کے وقت آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان کا عوامی قرضہ جی ڈی پی کے 65 فیصد تک آ جائے گا۔ اگلے مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے قرضوں میں نمایاں کمی کو جی ڈی پی کے 69 فیصد پر پیش کرتے ہوئے دکھایا ہے- ایک ایسا اندازہ جو دوبارہ غلط ثابت ہو سکتا ہے۔

آئی ایم ایف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں اور غیرملکی کرنسی میں قرض کے بڑے حصص کے ساتھ کم آمدن والے ترقی پذیر ممالک میں قرض کی حرکیات خراب ہوئیں کیونکہ کرنسی کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ افراط زر کے ساتھ آیا۔

گزشتہ برس پاکستانی روپے کی قدر میں 56 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ کمی ہے جبکہ مارچ میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 50 سال کی بلند ترین سطح پر 35.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here