ڈیجیٹل بینکنگ اپنا راستہ ضرور بنا رہی ہے مگر فی الحال کاغذی نوٹ ہی غالب ہیں، کیوں؟

365

کراچی: ڈیجیٹل بینکنگ کو فروغ دینے کے لیے جاری کوششوں کے باوجود سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ادائیگیوں کے منظر نامے پر کاغذی نوٹوں پر مبنی ادائیگیاں ہی غالب ہیں۔

سٹیٹ بینک نے مالی سال 2022-23 کے لیے ادائیگی کے نظام کے جائزے پر پہلی اور دوسری سہ ماہی کی رپورٹس جاری کی ہیں، جو جولائی سے دسمبر 2022ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس عرصے میں اگرچہ ڈیجیٹل ادائیگیوں میں کمی کا رجحان نظر آتا ہے لیکن یہ  کوئی بری خبر نہیں خاص طور پر مرکزی بینک کے لیے۔

اعدادوشمار کے مطابق سٹیٹ بینک کے “راست” پلیٹ فارم کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) مشینوں پر کی جانے والی ٹرانزیکشنز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کاغذی نوٹوں کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی مالیت رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر 54.8 کھرب روپے رہی جبکہ ای بینکنگ کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی مالیت 42.3 کھرب روپے تھی۔ اگرچہ کرنسی نوٹوں پر مبنی ٹرانزیکشنز کی مالیت مالی سال 2022ء کی دوسری سہ ماہی میں 46.7 کھرب روپے سے 2.7 فیصد اضافے کے ساتھ مالی سال 2023ء کی دوسری سہ ماہی میں 54.8 کھرب روپے ہو گئی لیکن ان ٹرانزیکشنز کے حجم میں 6.4 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے لین دین کے لیے کاروباری ادارے اور افراد اب بھی کاغذی نوٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

رپورٹ میں انٹرنیٹ اور موبائل فون بینکنگ صارفین کی نمایاں ترقی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ مالی سال 2022ء کی چوتھی سہ ماہی سے انٹرنیٹ بینکنگ صارفین کی تعداد میں 21 فیصد (ایک کروڑ 10 لاکھ صارفین) اور موبائل فون بینکنگ صارفین کی تعداد میں 22 فیصد (ڈیڑھ کروڑ صارفین) کا اضافہ ہوا ہے۔ ان ذرائع سے کی گئی ٹرانزیکشنز نے دونوں سہ ماہیوں میں مسلسل گروتھ بھی ظاہر کی ہے۔

موبائل اور انٹرنیٹ بینکنگ کی بڑھتی ہوئی رسائی نے ای بینکنگ میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے برعکس مالی سال 2023ء کی پہلی سہ ماہی میں ای بینکنگ ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 5 فیصد کمی ہوئی جبکہ حجم میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم 2023ء کی دوسری سہ ماہی میں ای بینکنگ نے ٹرانزیکشنز کے حجم (12.6 فیصد اور ویلیو (6.5 فیصد) دونوں میں متاثر کن بہتری دکھائی، جو بالترتیب 51  کروڑ 50 لاکھ اور 42 کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

اس کے برعکس دونوں سہ ماہیوں میں ای کامرس ٹرانزیکشنز کی تعداد میں کمی آئی لیکن مالی سال 2023ء  کی پہلی سہ ماہی میں ان ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 11.6 فیصد اور دوسری سہ ماہی میں 2.2 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ افراط زر کی شرح میں اضافے نے ای کامرس کو کافی متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں ٹرانزیکشنز کا حجم کم لیکن ویلیو زیادہ رہی۔

رپورٹ کا ایک اہم  پہلو “راست” کی متاثر کن نمو ہے، جو سٹیٹ بینک کی جانب سے فوری ادائیگی کا شروع کیا جانے والا نظام ہے۔ اسے 2021ء میں شروع کیا گیا تھا۔ دو سالوں کے اندر راست صارفین کی تعداد جون 2022ء میں ڈیڑھ کروڑ سے بڑھ کر دسمبر 2022ء تک 2 کروڑ 58لاکھ  تک پہنچ گئی جو صرف چھ ماہ میں 72 فیصد حیران کن شرح نمو کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح راست  کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جو جون 2022 میں 71 لاکھ  سے بڑھ کر دسمبر 2022ء میں 2 کروڑ 15 لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ ٹرانزیکشنز کی مالیت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جو دسمبر 2022ء میں 578.6 ارب روپے تک پہنچ گئی، یہ جون 2022ء میں 98.4 ارب روپے کے مقابلے میں 488.1 فیصد کی متاثر کن شرح نمو ہے۔

خاص طور پر دسمبر 2022ء میں رجسٹر ہونے والے ای کامرس تاجروں کی تعداد 11 ہزار 438 تھی، جو سہ ماہی کی بنیاد پر 10.16 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ بینکوں/ مائیکرو فنانس اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ تاجروں کی تعداد پانچ ہزار 954 رہی جب کہ الیکٹرونک منی انسٹی ٹیوشنز (EMIs) کے ساتھ رجسٹرڈ تاجروں کی تعداد پانچ ہزار 484 تھی۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں نے 2023ء  کی پہلی ششماہی میں الیکٹرونک منی انسٹی ٹیوشنز پر برتری حاصل کی ہے۔

مارچ 2023ء میں سٹیٹ بینک نے مرچنٹ ڈسکائونٹ ریٹ (ایم ڈی آر) اور انٹرچینج ری اِمبرسمنٹ فیس (آئی آر ایف) سے متعلق قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ اقدامات کتنے کامیاب ہوں گے اس کا انحصار پوائنٹس آف سیل کی تعداد اور آئندہ سہ ماہیوں میں ادائیگیوں کے اعدادوشمار پر ہو گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here