لاہور: پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے مطابق گاڑیوں کی فروخت میں ماہانہ بنیادوں پر 14 فیصد جبکہ سالانہ بنیادوں پر تقریباََ 47 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
پاما کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2023ء میں تمام کمپنیوں کے کُل 96 ہزار 950 یونٹس فروخت ہوئے جبکہ فروری میں ایک لاکھ 13 ہزار 62 یونٹ فروخت ہوئے تھے یوں ماہانہ لحاظ سے مارچ میں گاڑیوں کی فروخت میں 14 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ مارچ 2022ء کے ایک لاکھ 84 ہزار 428 یونٹس کے مقابلے میں 47 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
سالانہ بنیادوں پر کسی ایک کمپنی نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تاہم ماہانہ بنیاد پر سوزوکی، ٹویوٹا، ملت ٹریکٹرز، راوی اور یاماہا نے مارچ میں قدرے بہتر کارکردگی دکھائی۔ بالخصوص سوزوکی کی سیلز میں 155 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ سوزوکی کے برعکس گندھارا نسان نے فروخت میں 74 فیصد کمی کے ساتھ بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
سالانہ بنیادوں پر ملت ٹریکٹرز کی فروخت میں 14 فیصد کمی آئی جبکہ اس کی حریف الغازی ٹریکٹرز نے 88 فیصد فروخت میں کمی کے ساتھ بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
مسافر کاروں کی کیٹیگری میں ہونڈا کی سٹی اور سوک، ٹویوٹا کی کرولا اور یارس، سوزوکی کی آلٹو، ہنڈائی کی ٹکسن اور سازگار کی ایچ 6 نے فروری سے ہی اپنی کمپنیوں کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیوں کے طور اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ سازگار کے علاوہ ان کاروں کی فروخت میں سالانہ لحاظ سے بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اس کی مارچ 2022ء میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی BAIC BJ40L تھی۔
ماہانہ لحاظ سے مارچ میں مسافر گاڑیوں کی سیلز میں فروری کے مقابلے میں 56 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
دوسری طرف ماہانہ بنیاد پر مسافر بسوں کی فروخت میں مارچ کے دوران 79 فیصد اور سالانہ لحاظ سے مارچ 2022ء کے مقابلے میں 55 فیصد کمی ہوئی۔ لائٹ کمرشل گاڑیوں کی فروخت میں ماہانہ 10 فیصد اور سالانہ 15 فیصد کمی ہوئی۔ ٹرکوں کی فروخت میں ماہانہ 46 فیصد اور سالانہ لحاظ سے 44 فیصد کمی دیکھی گئی۔
مسافر کاروں کے شعبے میں سوزوکی نے ہونڈا کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنی مارچ 2022ء کی پوزیشن برقرار رکھی۔ ٹرکوں کے شعبے میں ماسٹر موٹرز نے مارچ 2023ء میں سب سے زیادہ سیلز کرکے گندھارا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ٹویوٹا نے مارچ 2023ء میں ہینو پاک کے ذریعے بسوں کے شعبے میں سبقت حاصل کر لی۔
ٹورس (Taurus) سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ مصطفیٰ مستنصر کہتے ہیں کہ ’’یہ اعدادوشمار بالکل بھی حیران کن نہیں کیونکہ درآمدی پابندیوں کے درمیان مکمل طور پر تیار شدہ کٹس کی عدم دستیابی کی وجہ سے آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے سیلز کم ہو رہی ہیں۔‘‘
پروویڈس (Providus) کیپٹل میں ہیڈ آف ریسرچ ستیش بالانی کے مطابق ’آٹو سیکٹر کی سیلز میں حالیہ کمی بڑی حد تک درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے آئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ از کم موجودہ مالی سال کے بقیہ مہینوں میں صورتحال بہتر ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ بات یہ ہے کہ چند ماڈلز کے علاوہ مقامی طور پر بہت کم گاڑیاں بنتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں، بلند ترین شرح سود، صارفین کی گرتی ہوئی قوت خرید اور آٹو فنانسنگ میں کمی کی وجہ سے بھی گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔
ستیش بالانی نے مزید کہا کہ ’’موجودہ منظر نامے کی وجہ سے مستقبل میں بھی ڈیمانڈ کم رہے گی لیکن جب بھی سپلائی معمول پر آ جائے گی تو فروخت بحال ہو جائے گی۔‘‘