لاہور: پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے مابین ادویات کی قیمتوں کے مسئلے پر مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔
چیئرمین پی پی ایم اے سید فاروق بخاری کا کہنا ہے کہ ڈریپ معاملے کو جان بوجھ کر لٹکا رہی ہے۔ حکومت اور ڈریپ دونوں کے تاخیری حربوں کی وجہ سے ادویہ سازی کی صنعت اور عوام شدید نقصان اٹھا رہے ہیں۔ مذاکرات کا مثبت نتیجہ برآمد ہونے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔
کورونا وبا کی وجہ سے عالمی منڈی میں فارما سیوٹیکل مرکبات بشمول ادویہ سازی میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح ہوشربا مہنگائی اور روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے جنوری 2023ء میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) جنوری 2022ء کے مقابلے میں 27.6 فیصد تک بڑھ گیا۔ اَب ڈالر 286 روپے کا ہو چکا ہے اور پاکستانی روپیہ ایشیا کی کمزور ترین کرنسیوں میں سے ایک ہے۔
ذرائع کے مطابق ادویہ سازی کیلئے 80 فیصد خام مال باہر سے درآمد کیا جاتا ہے اور ایکسچینج ریٹ میں متواتر اتار چڑھاو نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کیلئے پاکستان میں کام کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
فروری میں 70 فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے بڑھتی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو ادویات کی قیمتیں بڑھانے کیلئے خط لکھا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر ادویات کی زیادہ سے زیادہ ریٹیل پرائس مقرر نہ کی گئی تو ملک میں فارماسیوٹیکل انڈسٹری تباہ ہو جائے گی۔
چیئرمین پی پی ایم اے نے کہا کہ ان کے مطالبہ کی عدم منظوری کی صورت میں ناصرف فارما سیوٹیکل کمپنیاں اپنے یونٹس بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گی بلکہ اس صنعت سے وابستہ 10 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 1300 مقامی برانڈز نے حکومت کو کہہ دیا ہے کہ موجودہ حالات میں اُن کیلئے کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے حکومت سے قیمتوں میں 38 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا جس کے بعد یا تو ادویات بنانا بند کر دی گئیں یا محدود پیمانے پر کچھ ادویات بن رہی ہیں۔
وزرات صحت کے ترجمان ساجد شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہے اور وہ عوام اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہے تاہم فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو درپیش مسائل سے بھی متفق ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مارکیٹ میں کئی ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو سمگل شدہ ادویات پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جبکہ جعلی ادویات کی بھی مارکیٹ میں بھرمار ہو چکی ہے۔
قیمتوں میں اضافہ کا یہ معاملہ 27 مارچ کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں رکھا گیا مگر کمیٹی کو بریفنگ کیلئے ڈریپ کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ موخر ہو گیا۔ اس لیے ای سی سی نے مسئلہ حل کرنے کیلئے ڈریپ کو کیس تیار کرنے اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری کے نمائندوں سے مذاکرات کرنے کی ہدایت جاری کی۔ یاد رہے کہ مالیکیول سے مالیکیول کی بنیاد پر بھی قیمتوں کے تعین کا مسئلہ زیر بحث ہے۔