بھاری قرضہ، بین الاقوامی ادائیگیوں میں تاخیر، حکومتی مدد کے باوجود پی ایس او کے ڈیفالٹ کا خطرہ

442

کراچی: پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) بین الاقوامی سطح پر دیوالیے کے قریب ہے کیونکہ اس کے ذمے قطر کے 775 ارب روپے واجب الادا ہیں جن میں سے 498 ارب روپے سوئی سدرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل) نے ادا کرنے ہیں۔

پی ایس او ماہانہ ایل این جی کے آٹھ سے نو کارگو درآمد کرتی ہے۔ درآمدی ایندھن کی قیمت پندرہ روز میں ادا کرنا ہوتی ہے لیکن بھاری قرضوں کی وجہ سے کمپنی ادائیگیوں کے قابل نہیں رہی۔

پی ایس او کا قرضہ بھی 411 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے کمپنی کے مالیاتی اخراجات 43 ارب روپے اور آئندہ مالی سال کے لیے 73 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جس سے پی ایس او کے منافع پر منفی اثر پڑے گا۔

علاوہ ازیں پی ایس او کا دعویٰ ہے کہ وزارت خزانہ بروقت سبسڈی کی رقم جاری نہیں کر رہی جس سے کمپنی کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

جنوری کے اوائل میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پی ایس او کو خودمختار ضمانتوں (Sovereign guarantees) کے عوض 50 ارب روپے قرض لینے کی اجازت دی تھی تاہم وزارت خزانہ نے ایل او سی (letter of comfort) جاری کرنے میں چھ ہفتے سے زائد لگا دیے۔

14 مارچ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے ای سی سی کے اجلاس میں پی ایس او کے قرضے کیلئے ضمانت کی منظوری دی گئی۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق ای سی سی اجلاس سے قبل وزارت خزانہ کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں سوئی سدرن گیس کمپنی کیلئے ضمانت اور ایل او سی جاری کرنے کی منظوری دی گئی تاکہ گیس کمپنی مارکیٹ سے فوری طور پر 50 ارب روپے قرضہ لے کر پی ایس او کو واجبات کی ادائیگی کر سکے۔ پی ایس او بھی نئے قرضے سے اپنے بین الاقوامی سپلائرز کو ادائیگیاں کر سکتی ہے تاکہ اس کی سپلائی چین میں خلل نہ پڑے۔

تاہم دوسری جانب پی ایس او کا کہنا ہے کہ 50 ارب کے قرضے سے بھی اس کی لیکویڈٹی کی ضروریات پوری نہیں ہوئیں اور اس کے باوجود وہ بین الاقوامی ادائیگیاں نہ ہونے کی باعث ڈیفالٹ کے خطرے میں ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here