54 ارب روپے کا ہیسکول سکینڈل، چھ ملزمان کو کلین چٹ مل گئی

369

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 54 ارب روپے کے ہیسکول سکینڈل میں دوبارہ تحقیقات کے نتیجے میں چھ ملزمان کو کلین چٹ دے دی۔

ان میں نیشنل بینک کے سابق صدر سعید احمد، سر جیمز کارٹل ایلن ڈنکن، عبدالعزیز خالد، ارسلان محمود، عثمان شاہد اور عقیل احمد شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں ایک شخص کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

ہیسکول پٹرولیم لمیٹڈ (ایچ پی ایل) 2001ء میں ممتاز حسن نے شروع کی تھی۔ 2007ء میں یہ پبلک لمیٹڈ کمپنی بنی جبکہ 2014ء میں پاکستان سٹاک ایکسچنج پر لسٹڈ ہوئی۔

ہیسکول پٹرولیم نے 2009ء میں سمٹ بینک سے قرضہ لینا شروع کیا۔ 2014ء میں نیشنل بینک اس منظر نامے میں داخل ہوا۔ لیکن آئندہ سالوں میں ہیسکول کے مالیاتی لین دین سے متعلق معاملات تباہ کن ثابت ہوئے۔

جنوری 2022ء میں ایف آئی اے نے 54 ارب روپے کی جعل سازی کے الزام میں ہیسکول کے بانی ممتاز حسن سمیت نیشنل بینک، ہیسکول اور دیگر کمپنیوں سے 30 افراد کو گرفتار کیا۔ اُس وقت ایف آئی اے سندھ کے سربراہ نے اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں مبینہ طور پر ہیسکول، بائیکو (جو اَب Cnergyico کہلاتی ہے)، نیشنل بینک اور دیگر کمرشل بینکوں کے اعلیٰ افسران ملوث تھے۔

تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ 2015ء سے 2020ء کے دوران نیشنل بینک اور دوسرے کمرشل بینکوں کی جانب سے ہیسکول پٹرولیم کو مبینہ طور پر بینکنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی رِسک کنٹرول کے قرضوں اور ایل سیز کی سہولیات دی گئیں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔

پانچ سالوں میں ہیسکول کو جاری کی گئی رقوم کی مجموعی مالیت 54 ارب روپے ہے جس میں سے 18 روپے نیشنل بینک سے جاری ہوئے۔

نیشنل بینک نے کمزور سکیورٹیز کے باوجود ہیسکول کی کریڈٹ لائن دو ارب روپے سے بڑھا کر 18 ارب روپے کر دی اور فیول سپلائی کیلئے بائیکو پٹرولیم کے حق میں ہیسکول کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کا اجراء کیا حالانکہ ان ایل سیز پر فیول خریدا ہی نہیں گیا۔

نیشنل بینک کے علاوہ بھی کئی دوسرے بینکوں نے نان پروڈکٹ (جعلی) ایل سیز کھولیں جن کی مجموعی مالیت 54 ارب روپے تک جا پہنچی۔

یہاں کہانی میں نیا موڑ آیا۔ چونکہ اس سکینڈل میں ہیسکول کے سابق چیئرمین سر جیمز کارٹل ایلن ڈنکن، نان ایگزیکٹو ڈٓئریکٹر عبدالعزیز خالد، ارشد محمود اور سی ای او عقیل انصاری کا نام آ رہا تھا اس لیے ہیسکول کی سپلائر وائٹل (Vitol) نے دوبارہ تحقیقات کی درخواست کر دی۔

وائٹل کا مطالبہ تھا کہ ایف آئی اے نے اسے اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا اور ہیسکول میں وائٹل کے نامزد کردہ ڈائریکٹرز تحقیقات کے دوران ملک سے باہر تھے اس لیے تحقیقاتی افسران کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروا سکے۔

ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز کی ہدایت پر ایف آئی اے کراچی نے کیس کی دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا اور ایک تفصیلی سوالنامہ ہیسکول کو بھیجا۔ ہیسکول کی جانب سے بتایا گیا کہ سر جیمز کارٹل ایلن ڈنکن، عبدالعزیز خالد اور ارشد محمود کو کمپنی کے آزاد اور نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہونے کی وجہ سے کمپنیز ایکٹ 2017ء کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اسی طرح ایل سیز کیلئے کسی بھی جعلی پرچیز آرڈر پر سی ای او عقیل احمد کے دستخط موجود نہیں۔

دوبارہ تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ نیشنل بینک کی کریڈٹ کمیٹی کے سابق چیئرمین سعید احمد کا بینک چھوڑنے سے پہلے یا بعد میں ہیسکول کے کسی عہدیدار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگرچہ ہیسکول کو قرضے جاری کرنے کے حوالے سے ان کا کردار اہم رہا اور قرضے اس شرط پر دیے گئے کہ انہیں مطلوبہ مقصد کیلئے ہی استعمال کیا جائے گا تاہم ان کی طرف سے کسی مشکوک لین دین یا غیرقانونی طور پر نوازنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ نیشنل بینک کے سابق کریڈٹ کنٹرولر اور گروپ چیف سی ایم جی عثمان شاہد نے کریڈٹ پرپوزل پر دستخط نہیں کیے بلکہ ہیسکول کی بدترین مالیاتی پوزیشن کی نشاندہی کی۔ تاہم اُن کی تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

یوں ان چھ افراد کے نام الزامات سے پاک کر دیے گئے۔

دوسری جانب ہیسکول نے سندھ ہائی کورٹ میں نیشنل بینک سمیت تمام بینکوں کے قرضے واپس کرنے کیلئے ڈیٹ ری سٹرکچرنگ پلان جمع کروایا ہے اور نیشنل بینک نے اس حوالے سے ٹرم شیٹ بھی جاری کر دی ہے۔ ہیسکول کو امید ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس پر کامیابی سے عمل درآمد کر لیا جائے گا۔

ہیسکول سکینڈل پر پرافٹ کی ویڈیو دیکھیں:

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here