یہ بات ہے سن 1879ء کی۔ ایک 16 سالہ امریکی لڑکا اپنے کسان باپ کا فارم ہائوس چھوڑ کر کام کیلئے قریبی شہر ڈیٹرائٹ چلا گیا۔
اُس وقت امراء کے پاس سفر کرنے کیلئے گھوڑا گاڑیاں دستیاب تھیں یا پھر بھاپ پر چلنے والے انجن کی ایجاد کے کارن ریل گاڑی میسر تھی۔ لیکن عام آدمی کے سفر کا ذریعہ اس کی دو ٹانگیں ہی تھیں۔
تاہم اُس کسان کے بیٹے نے آگے چل کر ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھی جس نے ناصرف آٹو موبائل انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا بلکہ کار عام آدمی کی قوت خرید میں کر دی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کرہ ارض پر چلنے والی کم و بیش آدھی کاریں اُس کسان زادے کی قائم کردہ کمپنی کی تیارکردہ تھیں۔
یہ تھے ہینری فورڈ۔ جنہیں امریکا کے زرعی معاشرے کو ایک کار ایجاد کرکے صنعتی معاشرے میں بدلنے والے شخص کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
ہینری فورڈ 30 جولائی 1863ء کو امریکی ریاست مشی گن میں ایک کسان جوڑے ولیم اور میری فورڈ کے ہاں پیدا ہوئے۔
نوعمری میں ہینری اپنے والد کے ساتھ کھیتوں پر کام کرنے کے علاوہ سکول بھی جاتے رہے تھے اور ابتدائی جماعتیں پڑھ بھی گئے۔
لیکن 1879ء میں وہ ڈیٹرائٹ (Detroit) چلے گئے اور ایک ورکشاپ میں مکینک کی نوکری کر لی۔
ڈیٹرائٹ میں ہینری نے پہلی بار انٹرنل کمبسچن انجن (Internal combustion engine) دیکھا۔ تین سال بعد وہ اپنے گائوں واپس لوٹے تو چھوٹی سی ورکشاپ کھول لی۔
اُسی ورکشاپ پر ہینری نے ایک پرانی مشین اور سٹیم انجن کو جوڑ کر ٹریکٹر نما کوئی چیز بنائی۔ یہ فورڈ کی پہلی ایجاد تھی۔
لیکن ان کا خواب ایک ایسی کار بنانا تھا جو صرف امراء کیلئے نہ ہو بلکہ عام امریکی شہری کی قوت خرید کے مطابق بھی ہو۔ تاہم سٹیم انجن کے ساتھ ایسی کار بنانا اور اسے چلانا ممکن نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے: غریب سائیکل مکینک کا بیٹا جس نے اربوں ڈالر کی ہونڈا کمپنی قائم کی
1891ء میں وہ دوبارہ ڈیٹرائٹ چلے گئے جو اس زمانے میں بتدریج ایک صنعتی شہر بن رہا تھا اور زیادہ تر انڈسٹری اور ورکشاپس وہیں پر قائم تھیں۔
اَب کی بار ہینری کو ڈیٹرائٹ ایڈیسن کمپنی کے پاور پلانٹ پر انجنئیر کی نوکری ملی۔ اُن کا کام شہر میں 24 گھنٹے بجلی کی دستیابی ممکن بنانا، فون پر لوگوں کی شکایات سننا اور ان کے مسائل حل کرنا تھا۔
چونکہ وہ انٹرنل کمبسچن انجن سے متعارف ہو چکے تھے، اس لیے نوکری کے ساتھ ساتھ پٹرول انجن پر کام کرتے رہے اور 1893ء میں فور ہارس پاور کا انجن بنانے میں کامیاب ہو گئے جو بھاپ کی بجائے پٹرول سے چلتا تھا۔
اگلے تین سال انہوں نے ایک بگھی میں اپنا بنایا ہوا فور ہارس پاور کا انجن لگا کر اسے کار کی شکل دینے کی کوششں جاری رکھی اور 1896ء میں بالآخر پہلی فورڈ کار بنانے میں کامیاب ہو گئے جسے انہوں نے Quadricycle کا نام دیا کیونکہ یہ کار دھاتی فریم کی بگھی کے نیچے سائیکل کے چار پہیے لگا کر بنائی گئی تھی۔
اُس وقت تک ڈیٹرائٹ شہر گاڑیوں اور انجنوں کے کاریگروں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ فورڈ سے قبل بھی دو چار آدمی ذاتی استعمال کیلئے کاریں بنا چکے تھے لیکن وہ برائے فروخت نہ تھیں۔ فورڈ نے اُن کی تقلید کرنے کی بجائے اپنی بنائی ہوئی پہلی کار فروخت کر دی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے دوسری اور پھر تیسری کار پر کام شروع کر دیا۔
اگلے سات سالوں میں انہیں کچھ اچھے سرمایہ کار میسر آ گئے جنہوں نے باہمی اشتراک سے 1899ء میں ڈیٹرائٹ آٹوموبائل کمپنی قائم کر لی جو بعد میں ہینری فورڈ کمپنی بن گئی۔
سرمایہ کاروں کا دبائو تھا کہ فورڈ زیادہ سے زیادہ کاریں بنائیں جنہیں مارکیٹ میں فروخت کیا جائے کیونکہ مارکیٹ میں طلب بڑھ رہی تھی۔
لیکن فورڈ اپنی کاروں کو مارکیٹ میں لانے سے اس لیے ہچکچاتے رہے کیونکہ وہ معیار کو مزید بہتر بنائے بغیر عوام کو فروخت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
اسی بناء پر سرمایہ کاروں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے 1902ء میں انہوں نے ہینری فورڈ کمپنی کو خیرباد کہہ دیا جو بعد ازاں کیڈلک موٹر کار کمپنی بن گئی۔
یہ بھی پڑھیے: عام امریکی شہری قرضوں میں کیوں جکڑے ہیں؟
اگلے ہی سال 1903ء میں ہینری نے فورڈ موٹر کمپنی کھولی اور ایک مہینے کے اندر 8 ہارس پاور انجن پر مشتمل ’ماڈل اے‘ کے نام سے پہلی کار مارکیٹ میں متعارف کروا دی۔
کمپنی کا آغاز تو کامیابی سے ہو گیا۔ پہلی کار بھی مارکیٹ میں آ گئی۔ لیکن ڈیٹرائٹ کے سرمایہ کار اُن سے خار کھائے بیٹھے تھے اور ایک پیسہ لگانے کو تیار نہ تھے کیونکہ فورڈ منافع خوری کے خلاف تھے جبکہ سرمایہ کار جلد از جلد کاریں مارکیٹ میں لا کر بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنا چاہتے تھے۔ اس لیے فورڈ کو ابتدائی طور پر محض 28 ہزار ڈالر میسر آ سکے۔
اس پر ستم یہ کہ کمپنی کو قائم ہوئے ابھی ایک ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا جب ایسوسی ایشن آف لائسنسڈ آٹوموبائل مینوفیکچررز نے اسے کام بند کرنے کی دھمکی دے دی کیونکہ ہینری فورڈ کے پاس مینوفیکچرنگ کا لائسنس نہ تھا اور ایسوسی ایشن کی جانب سے انہیں لائسنس دینے سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔
یہ تنازع عدالت تک پہنچا اور 1911ء میں فورڈ مقدمہ جیت گئے۔ مقدمہ جیتنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ایسوسی ایشن کے خلاف کھڑے ہونے پر انہیں انڈسٹری میں ایک ہیرو کے طور پر لیا جانے لگا۔
اکتوبر 1908ء میں انہوں نے ’فورڈ ماڈل ٹی‘ متعارف کرائی۔ یہ گاڑی اس قدر کامیاب ہوئی کہ اگلے 19 سالوں میں امریکا میں اس کے ایک کروڑ 55 لاکھ، کینیڈا میں 10 لاکھ اور برطانیہ میں اڑھائی لاکھ یونٹ فروخت ہو گئے۔ یہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کار تھی۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک کار نے امریکا کو بدل کر رکھ دیا۔ ہینری فورڈ کا ویژن تھا کہ کار عام آدمی کی سہولت اور ضرورت کیلئے ہونی چاہیے۔ محض امراء کی لگژری کیلئے نہیں۔
لہٰذا فورڈ کے اس ویژن اور ’ماڈل ٹی‘ کی ہاتھوں ہاتھ فروخت کی وجہ سے محض دو عشروں میں متوسط امریکی خاندانوں میں ایسی تیز ترین سماجی اور معاشی تبدیلی آئی جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔
پہلے جو کاریں صرف امراء کے پاس تھیں، اَب کروڑوں عام لوگوں کے پاس بھی آ گئیں تو زیادہ سے زیادہ لوگ فیکٹریوں میں جانے لگے۔ گھوڑا گاڑیوں کی جگہ کاریں آ گئی تو کسانوں نے گھوڑوں کی خوراک اگانے کی بجائے منافع بخش فصلیں اگانا شروع کر دیں۔ کاروں کی تعداد بڑھی تو پورے امریکا میں وسیع و عریض سڑکوں کا جال بچھنے لگا جس سے عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع ملنے لگے اور حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں زیادہ آمدن ہونے لگی۔
اس کار نے امریکا کے زرعی معاشرے کو صنعتی معاشرے میں بدل دیا اور زراعت کی بجائے آٹوموبائل انڈسٹری امریکی معیشت کی بنیاد بن گئی۔ دیہات سے شہروں کی جانب آبادی کی نقل مکانی بڑھنے لگی جس سے ہائوسنگ سیکٹر نے بھی خوب ترقی کی۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں ہینری فورڈ نے اتنی زیادہ کاریں کیسے بنائیں؟
فورڈ زرخیز ذہن کے مالک تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آٹو انڈسٹری میں اسمبلی لائن اور ماس پروڈکشن تکنیک (mass production technique) متعارف کرائی۔ اِس سے گویا انڈسٹری میں انقلاب آ گیا۔ نتیجتاََ ہر 93 منٹ بعد ایک گاڑی کا ڈھانچہ تیار ہونے لگا جس پر پہلے کئی دن لگتے تھے۔
1914ء میں فورڈ نے ورکرز کیلئے پانچ ڈالر فی دن اجرت مقرر کر دی جبکہ باقی کمپنیاں دو اڑھائی ڈالر دے رہی تھیں۔ انہوں نے اوقاتِ کار بھی 9 گھنٹے سے کم کر کے 8 گھنٹے کر دیے تاکہ تین شفتوں میں کام ہو سکے۔ اِن اقدامات کی وجہ سے فورڈ راتوں رات ورکرز کے ہیرو بن گئے تاہم امریکی پریس نے اُن پر ’پاگل سوشلسٹ‘ کی بھپتی کسی۔
اُس زمانے کی نوآموز آٹو انڈسٹری میں منافع کمانے کیلئے کمپنیوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ورکرز کو کم از کم اجرت دیں اور کاروں کی قیمت زیادہ سے زیادہ رکھیں۔ ایسی صورت میں صرف امراء ہی کاریں خرید سکتے تھے۔
لیکن ہینری فورڈ نے ورکرز کی اجرت بڑھانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی قیمتیں کم رکھنے پر بھی زور دیا اور اس کی مثال خود اپنی کمپنی سے پیش کی۔ ’فورڈ ماڈل ٹی‘ جو 1908ء میں 950 ڈٓالر کی تھی اس کی قیمت 290 ڈالر کر دی۔
قیمتیں گرنے سے کم آمدن والے امریکی خاندانوں نے بھی گاڑیاں خرید لیں اور پہلی بار امریکا میں کار ایک لگژری کی بجائے بنیادی ضرورت بن گئی۔
یہ بھی پڑھیے: حکومتیں پیسہ کیسے بناتی ہیں؟
ایک وقت وہ بھی آیا کہ کاروں کی فروخت کئی سو گنا بڑھ گئی اور فورڈ کمپنی کو ہر 24 سیکنڈ بعد ایک کار کا ڈھانچہ تیار کرنا پڑا۔ یہ سب ہینری فورڈ کی ماس پروڈکشن تکنیک کی وجہ سے ممکن ہو سکا کہ وہ طلب اور رسد میں توازن رکھنے میں کامیاب رہے۔
ابتدائی پانچ سالوں میں فورڈ نے آٹھ ماڈل متعارف کرائے۔ 1908ء تک کمپنی کی پیداوار 100 یونٹ فی دن تھی۔ شئیر ہولڈرز تو خوش تھے لیکن مسٹر فورڈ مطمئن نہیں تھے وہ پیداوار کو ایک ہزار یونٹ فی دن تک لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم شئیر ہولڈرز معترض تھے کہ ہینری فورڈ منافع کی رقم کمپنی کی توسیع کیلئے استعمال نہ کریں۔
فورڈ نے شئیر ہولڈرز کو ’پیراسائیٹس‘ قرار دیتے ہوئے جرات مندانہ اعلان کیا کہ وہ مستقبل میں صرف ’ماڈل ٹی‘ ہی بنائیں گے۔ یہ مخاصمت اس قدر بڑھی کہ معاملہ پھر عدالت میں پہنچ گیا۔
فورڈ اپنی کمپنی میں 58 فیصد حصص کے مالک تھے لیکن عدالتی فیصلے کے بعد انہوں نے چھوٹے شئیر ہولڈرز کے حصص بھی خرید لیے اور تاریخ میں شائد پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک اکیلا شخص اتنے بڑے کاروبار کا واحد ملک بن بیٹھا۔
1927ء تک فورڈ کمپنی کے پاس خام مال کی تیز ترین فراہمی کیلئے ذاتی ریلوے نیٹ ورک، لوہے اور تانبے کی 16 کانیں اور ٹائر بنانے کیلئے سات لاکھ ایکڑ پر ربڑ کے درختوں کا جنگل تھا۔ صبح 8 بجے تک پورے دن کیلئے ضروری خام مال فائونڈری میں پہنچ جاتا اور محض 28 گھنٹے بعد ایک مکمل تیار شدہ گاڑی مارکیٹ میں پہنچ جاتی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کرہ ارض پر چلنے والی آدھی کاریں فورڈ موٹر کمپنی کی بنائی ہوئی تھیں۔ تب تک کمپنی 33 ملکوں تک اپنا کاروبار وسیع کر چکی تھی۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کاروباری سلطنت کھڑی کرنے کیلئے ہینری فورڈ کو ایک ڈالر بھی قرض نہیں لینا پڑا بلکہ انہوں نے یہ سب ’ماڈل ٹی‘ کے منافع سے کرکے دکھایا۔
لیکن جیسے ہر عروج کو ایک نہ ایک دن زوال دیکھنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی آگے چل کر فورڈ کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ کہانی پھر سہی۔