ہم یہ تو سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ پاکستان مجموعی طور پر اتنے ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے اور ہر پیدا ہونے والا بچہ اتنے لاکھ ڈالر قرض اپنے سر لے کر پیدا ہوتا ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے امیر ترین ملک امریکا کے شہری مجموعی طور پر 16 کھرب 15 ارب ڈالر کے مقروض ہیں۔ جی ہاں 16 کھرب ڈالر، اور یہ اعدادوشمار سن 2022ء کے ہیں۔
یہ وہ قرض ہے جو امریکی حکومت نے کسی ملک، آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سے نہیں لیا ہوا بلکہ عام امریکی شہریوں نے اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے حاصل کیا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ عام امریکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور اس کا امریکی معیشت پر کتنا اثر پڑتا ہے؟
امریکا میں زیادہ تر لوگ گھر یا گاڑی خریدنے، تعلیم حاصل کرنے یا علاج معالجے کیلئے قرض لیتے ہیں۔ یہ household debt کہلاتا ہے۔ یعنی عام امریکی خاندان اپنی آمدن سے پوری نہ ہو سکنے والا ضروریات کیلئے قرض لے لیتے ہیں جو کچھ سالوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔
امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کافی مہنگی ہے جس کی وجہ سے طلباء اور ان کے کم آمدن والے والدین سٹوڈنٹ لون لے لیتے ہیں جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس کرنا ہوتا ہے۔
بعض صورتوں میں قرض واپسی کا عمل بھی کافی مشکل ثابت ہوتا ہے اور انہیں بیک وقت دو تین نوکریاں کرنا پڑتی ہیں۔اسی طرح بعض بیماریوں کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو میڈیکل لون لے کر گزارا کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان کو چھوڑیں، چین امریکا میں بھی اربوں ڈالر کے اثاثوں کا مالک
چین میں رئیل اسٹیٹ بحران، دنیا کیوں پریشان ہے؟
ملک دیوالیہ کیوں ہوتے ہیں اور اس کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے؟
لیکن قرضوں کا یہ کوہِ ہمالیہ جہاں عام صارفین کیلئے پریشان کن ہے وہیں امریکی حکومت کیلئے دردِسر بنتا جا رہا ہے کیونکہ حکومت سے اکثر یہ مطالبات کیے جاتے ہیں کہ وہ بینکوں سے بات کرکے قرض معاف کروائے۔
دس سال قبل امریکی خاندانوں کے ذمے 11 کھرب 39 ارب ڈالر قرض تھا جو سن 2022ء کی دوسری سہ ماہی تک 41.79 فیصد اضافے سے 16 کھرب 15 ارب ہو چکا ہے۔ 2020ء میں امریکیوں نے 83 ارب ڈالر صرف کریڈٹ کارڈ ڈیٹ کی صورت ادا کیے۔
انشورنس اور فنانشنل سروسز کمپنی نارتھ ویسٹرن میوچل کے مطابق وبا کی وجہ سے امریکا میں مہنگائی کی شرح 40 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ متوقع ہے اور 43 فیصد امریکیوں کو لگتا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران انہیں زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے مزید قرض لینا پڑے گا۔
نارتھ ویسٹرن میوچل کے سروے میں 60 فیصد امریکی نوجوانوں نے بھاری قرض کو اپنی مالی پریشانیوں کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
گو کہ وبا نے امریکی شہریوں کو اپنی مالی حالت بہتر بنانے اور بچت کرنے کی جانب راغب کیا۔ 2007ء کی عالمی کساد بازاری سے لیکر فروری 2020ء تک امریکا میں بچت کی شرح 7.25 فیصد تھی جو وبا کے دو سالوں کے دوران بڑھ کر 12.6 فیصد ہو گئی۔
تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث تقریباََ آدھے امریکی شہری مزید قرضوں کی دلدل میں دھنس جائیں گے کیونکہ انہوں نے گھر یا گاڑی جو چیز بھی قرض لے کر خریدی ہے اس کی قیمت اور سود کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔
زیادہ تر امریکی گھر بنانے یا خریدنے کیلئے قرضہ لیتے ہیں۔ 16 کھرب ڈالر کے مجموعی قرض میں سے 73 فیصد اسی مد میں جاری کیا گیا ہے۔
پیو ریسرچ (Pew Research) کے مطابق آج 49 فیصد امریکیوں کے نزدیک سستا گھر ملنا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وبا کے دوران گھروں کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس نے گھر خریدنے کے خواہش مند عام امریکی شہری کیلئے یہ اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
دوسری جانب نان ہائوسنگ لونز میں سب سے زیادہ شرح تعلیم اور گاڑی خریدنے کے لیے حاصل کردہ قرضوں کی ہے۔ سٹوڈنٹ لونز کی شرح 35.7 فیصد جبکہ آٹو لونز کی شرح 33.7 فیصد ہے۔
سن 2000ء سے لے کر 2020ء تک امریکی کالجوں کی فیسوں میں سالانہ 9 فیصد کے حساب سے 179 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سٹوڈنٹ لون کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
24 اگست کو امریکی صدر جو بائیڈن نے سالانہ سوا لاکھ ڈالر سے کم آمدن والوں کیلئے 10 ہزار ڈالر سٹوڈنٹ لون معاف کرنے کا اعلان کیا۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ مہنگائی چالیس سال کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے، امریکیوں کو شکوہ ہے کہ ان کی آمدن اُس تناسب سے نہیں بڑھی۔
گزشتہ ایک سال میں ملازمین کی فی گھنٹہ اوسط اجرت میں تین فیصد کمی دیکھی گئی ہے جبکہ اسی دوران مہنگائی ساڑھے آٹھ فیصد بڑھ چکی ہے۔
امریکی معیشت کیلئے household debt دو دھاری تلوار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے ایک جانب تو صارفین کے اخراجات (consumer spending) میں اضافہ ہوتا ہے جو امریکی جی ڈی پی کا 68.4 فیصد ہیں۔
لیکن دوسری جانب اگر صارفین خرچ نہیں کریں گے تو کاروباری ادارے اپنی پیداوار بند کر دیں گے اور ورکرز بے روزگار ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے ایک طبقہ خرچ کرتا ہے تو دوسرا کماتا ہے۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گھریلو یا ہائوس ہولڈ قرضے امریکی معیشت کی بھی ضرورت ہیں۔
لیکن حد سے متجاوز ہائوس ہولڈ ڈیٹ کو کساد بازاری کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ایسے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے امریکی جی ڈی پی نیچے گیا ہے۔
تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آمدن میں کمی کی وجہ سے قرض کی واپسی کے حوالے سے درپیش مشکلات کے باعث کروڑوں افراد پریشان ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرض پر قابو پانے کیلئے پالیسی سازی کا بنیادی کردار ہے۔ ماہرین کے مطابق تنخواہوں کی کٹوتی جیسے پرانے اور فرسودہ طریقوں سے اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ نئے طریقے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
دراصل اس پالیسی کو امریکا میں wage garnishment کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ورکر کی تنخواہ اس کے حاصل کردہ قرض کی مد میں کٹتی رہتی ہے۔ 2016ء میں سات فیصد امریکی ورکرز کو اس پالیسی کے تحت تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت بھی کچھ مخصوص قرضوں کے اجراء میں کمی لا کر اس مسئلے پر قابو پا سکتی ہے جیسے کہ علاج معالجے کیلئے لیا جانے والا قرضہ۔ جو دو کروڑ 30 لاکھ امریکیوں نے لے رکھا ہے۔
مڈل کلاس امریکی خاندانوں کو قرض واپسی کیلئے سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں کیونکہ یہ طبقہ گھر، گاڑی، یا پھر تعلیم اور علاج کیلئے قرضوں پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن ان کی سالانہ آمدن اب بھی تین سال پہلے جتنی ہے جبکہ اس دوران سود کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے اور انہیں قرض ہر صورت واپس کرنا ہے۔