چین میں رئیل اسٹیٹ بحران، دنیا کیوں پریشان ہے؟

1667

28 جولائی کو یہ خبر عالمی میڈیا کی زینت بنی کہ چین سے تعلق رکھنے والی ایشیا کی امیر ترین خاتون یانگ  ہوئیان (Yang Huiyan) اپنی آدھی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔

بلومبرگ بلینیئرز انڈیکس کے مطابق چینی پراپرٹی فرم کنٹری گارڈن  کی سب سے بڑی شیئرز ہولڈر یانگ ہوئیان کی مجموعی دولت گزشتہ سال 23 ارب 70 کروڑ ڈالر تھی جو پراپرٹی بحران کی وجہ سے 52 فیصد کم ہو کر 11 ارب 30 کروڑ ڈالر رہ گئی ہے اور  یانگ ایشیا کی امیر ترین خاتون کا اعزاز کھو بیٹھی ہیں۔

پراپرٹی بحران کب اور کیوں پیدا ہوا؟

1998ء میں چینی حکومت نے معاشی اصلاحات کے تحت تقریباََ 15 وزارتیں ختم اور صنعتی شعبے  کا ڈھانچہ  تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ انتظامی مسائل پر قابو پا کر پیداواری عمل کو تیز کیا جا سکے۔

ان اصلاحات کے نیتجے میں دیگر شعبوں کے ساتھ کنسٹرکشن سیکٹر میں بھی تیزی آ گئی۔ مڈل کلاس سے لے کر  بڑی بڑی کمپنیوں تک ہر کسی نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ چینی حکومت نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ پراپرٹی سیکٹر کیلئے قرضوں تک رسائی آسان بنائیں جس کے بعد بڑے ڈویلپرز اور عام عوام نے بھی بینکوں سے قرضے لے کر ہائوسنگ سیکٹر میں پیسہ لگا دیا۔

تاہم زیادہ تر ڈویلپرز نے   pre-sales کا طریقہ اپنایا اور خریداروں سے رہن (Mortgage) کی مد میں ایسے مکانات  یا جائیدادوں کا پیسہ بھی وصول کرنا شروع کر دیا جو ابھی تعمیر کی جانی تھیں۔

بلوم برگ کے مطابق تقریباََ ساڑھے 22 کروڑ سکوئر میٹر رقبے کے برابر ایسے ہی گھر فروخت کیے گئے جو صرف کاغذوں پر موجود تھے اور زمین پر ان کا نام و نشان تک نہ تھا۔

یہ بھی پڑھیے: 

کیا دنیا غذائی بحران کے دہانے پر ہے؟

سری لنکا معاشی بحران کا شکار کیوں ہوا؟

پانچ معاشی بحران جنہوں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا

یہ دراصل وہی طریقہ ہے جو پاکستان میں کئی بڑی اور معروف ہائوسنگ سوسائٹیوں نے اپنا رکھا ہے کہ وہ پلاٹوں کی فائلیں فروخت کر دیتے ہیں جبکہ سوسائٹی کیلئے زمین بھی نہیں خریدی ہوتی۔

یوں کچھ ہی سالوں میں چین میں پراپرٹی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں کیونکہ ہر کوئی رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگا رہا تھا۔

اسی طرح بینکوں کی جانب سے پراپرٹی سیکٹر کیلئے خزانے کے منہ کھول دیے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینی بینکوں نے مجموعی قرضوں کا 20 فیصد قرضے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ کمپنیوں اور افراد کو جاری کر دیے۔

تاہم رئیل اسٹیٹ کی بڑھتی قیمتوں اور بے تحاشہ قرضوں کی وجہ سے چینی حکومت نے 2020ء میں پراپرٹی سیکٹر کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ پیپلز بینک آف چائنا نے بینکوں کو حکم دیا کہ وہ ڈویلپرز کو ایک خاص حد سے زیادہ قرضے نہ دیں اور پرانے قرضوں کی واپسی کیلئے اقدامات کریں۔

قرض واپسی کے مطالبے اور نئی فنانسنگ پر پابندی سے کئی بڑے ڈویلپرز کیلئے مشکلات پیدا ہو گئیں جس سے ایورگرینڈ اور سناک جیسی بڑی پراپرٹی کمپنیاں  دیوالیے کے دھانے پر پہنچ گئیں۔

ایور گرینڈ کے ذمے 300 ارب ڈالر کے واجبات تھے جسے کمپنی نے جولائی 2022ء تک موخر کروا لیا تھا تاہم پھر بھی ادائیگی نہیں ہو سکی۔

سرکاری کریک ڈائون کے ساتھ ساتھ پراپرٹی سیکٹر کورونا  وبا اور معاشی غیریقینی سے بھی شدید متاثر ہوا جس سے خریداروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھنے لگا اور اس نے باقاعدہ بحرانی شکل اختیار کر لی۔

ستمبر2021ء میں ایورگرینڈ دیوالیہ ہوئی تو اس کے پراجیکٹس میں سرمایہ لگانے والوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ جون 2022ء میں اس احتجاج نے نئی صورت اختیار کر لی اور وہ تھی  mortgage boycott۔

ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کے خریداروں نے مکانات اور دیگر عمارات کی تعمیر اور ڈویلپرز کی جانب سے پراپرٹی یونٹس کی فراہمی میں تاخیر کے ردعمل میں تکمیل سے قبل فروخت کردہ گھروں کیلئے رہن (mortgage) کی ادائیگی روکنا شروع کر دی۔ ایک ماہ کے اندر یہ بائیکاٹ 70 سے زیادہ شہروں تک وسیع ہو گیا۔

پیپلز بینک آف چائنا کے اعدادوشمار کے مطابق  مارچ 2022ء کے اختتام تک پراپرٹی سیکٹر سے 39 کھرب یوآن مارٹیگیج کی مد میں جبکہ 13 ارب یوآن دیگر قرضوں کی مد میں واجب الادا تھے جن کا تعلق رئیل اسٹیٹ سے ہی ہے۔

اسی بارے میں بلوم برگ کی رپورٹ میں سٹینڈرڈ اینڈ پوئر گلوبل ریٹنگز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مارٹگیج بائیکاٹ کی وجہ سے بینکوں کو 2 کھرب 40 ارب یوآن یعنی 356 ارب ڈالر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ پراپرٹی سیکٹر کی جانب سے لیے گئے 6.4 فیصد قرضے بینکوں کو واپس ملنے کی توقع نہیں جبکہ ڈوئچے بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سات فیصد قرضوں  کی واپسی خطرے میں ہے۔

پراپرٹی سیکٹر کو چین میں معاشی استحکام کی بنیاد کہا جاتا ہے کیونکہ یہ چین کے جی ڈی پی کے تقریباََ 20 فیصد کے برابر ہے اور 1998ء کے بعد اس سیکٹر میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہو ئی۔ تاہم جون 2022ء تک پراپرٹی سیکٹر  میں سرمایہ کاری میں 9.4 فیصد کمی  آ چکی تھی۔

سٹینڈرڈ اینڈ پوئر کے مطابق بحران اور مارٹگیج بائیکاٹ کی وجہ سے رواں سال چین میں گھروں کی فروخت میں 33 فیصد کمی آ سکتی ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ مزید کئی پراپرٹی ڈویلپرز دیوالیہ ہو جائیں گے جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران چوٹی کی 100 پراپرٹی کمپنیوں میں سے 28 بڑی کمپنیاں یا تو بانڈز میں ڈیفالٹ کر چکی ہیں یا پھر بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کرکے قرض ادائیگی کچھ مدت کیلئے موخر کروا چکی ہیں۔

کیا واقعی عالمی معیشت کو خطرہ ہے؟

خریداروں کی جانب سے مارٹگیج بائیکاٹ کی وجہ سے بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ڈویلپرز پر دبائو مزید بڑھ چکا ہے۔ اس بائیکاٹ نے ایک جانب تو ایسے خدشات کو جنم دیا ہے کہ اگر رئیل اسٹیٹ بحران نے پوری چینی معیشت کو لپیٹ میں لے لیا تو کیا ہو گا؟

دوسری جانب دنیا بھر کے معاشی ماہرین کے کان کھڑے ہو گئے ہیں کہ کہیں عالمی معیشت بھی اس بحران کی زد پر نہ آ جائے کیونکہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جو عالمی تجارت اور معیشت پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔

چونکہ چین کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ذمے اربوں ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں جبکہ ڈویلپرز اپنے پراجیکٹس جاری رکھنے کیلئے مزید قرضوں کے حصول کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین کا مالیاتی نظام براہ راست متاثر ہو رہا ہے جس کا خدشہ دو ماہ قبل امریکی فیڈرل ریزرو نے بھی ظاہر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: 

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں کیا فرق ہے؟

حکومتیں پیسہ کیسے بناتی ہیں؟

ریلیف  کا لالی پاپ  معیشت کیلئے نقصان دہ

اسی لیے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین کے فنانشل سسٹم پر زد پڑی تو اس کے اثرات چین سے باہر بھی محسوس کیے جائیں گے۔

فچ ریٹنگز نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر رئیل اسٹیٹ بحران بڑھا اور مزید پراپرٹی فرمز دیوالیہ ہو گئیں تو اس بحران کے معاشی اور سماجی اثرات کہیں زیادہ وسیع ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت  پراپرٹی سیکٹر کو بچانے کیلئے بیل آئوٹ پیکج یا ریسکیو فنڈ کا اعلان کرے۔ اس سے ظاہر ہو گا کہ حکومت کو بحران کی شدت کا اندازہ ہے اور وہ اسے حل کرنا چاہتی ہے۔

لیکن اس بحران میں سب سے زیادہ متاثرہ فریق وہ بینک ہیں جن کے اربوں ڈالر قرضوں کی مد میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر وہ پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے ڈویلپرز کی مدد نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے ان کے پرانے قرضے بھی واپس نہ ملیں۔

لیکن اگر وہ حکومتی ایماء پر نئے قرضے دیتے ہیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ تاخیر کا شکار پراجیکٹس کب تک مکمل ہوں۔

تاہم پیپلز بینک آف چائنا نے یقین دہانی کروائی ہے کہ زیرِ تکمیل پراجیکٹس مکمل کروا کر خریداروں کو دیے جائیں گے اور بینکوں کو بھی ان کے قرضے واپس دلوائے جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here