کیا آپ نے کبھی دراز ، ایمازون یا علی بابا سے خریدی ہوئی کوئی چیز پسند نہ آنے پر یا کسی اور وجہ سے واپس کی ہے؟ اگر کی ہے تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی واپس کردہ اشیاء جاتی کہاں ہیں؟
آپ کو شائد یہ جان کر حیرت ہو کہ صارفین کے ریٹرنز یعنی اشیاء کی واپسی کی وجہ سے اربوں ڈالر کی انڈسٹری کھڑی ہو چکی ہے جہاں آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل سکتی ہے۔
2021ء کے اختتام تک دنیا بھر میں ای کامرس ریٹیل بزنس کا مجموعی حجم چار کھرب 90 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا اور 2025ء تک اس میں 50 فیصد اضافے کے ساتھ سات کھرب 40 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
کورونا وبا کے دوران جب پوری دنیا میں انڈسٹری اور کاروبار بند رہا تب بھی ای کامرس میں 11 فیصد کی گروتھ ریکارڈ کی گئی۔
ای کامرس ریٹیل انڈسٹری کے بالکل متوازی ایک اور سیکنڈری انڈسٹری بھی کام کر رہی ہے جو صارفین کی واپس کردہ اشیاء پر مشتمل ہے ۔ اس کا حجم 644 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
تغیر پذیر ہونے کی وجہ سے ریٹیل سیکٹر مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ بڑے ریٹیلرز پر ایک جانب معیار کے حوالے سے دبائو بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف انہیں سپلائی چین کے مسائل درپیش ہیں۔ سپلائی چین بیک لاگز (backlogs) کی وجہ سے بعض اوقات ریٹیلرز کے پاس چیزوں کی کمی ہو جاتی ہے تو خریدار کسی اور پلیٹ فارم سے رجوع کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں کیا فرق ہے؟
چین میں رئیل اسٹیٹ بحران، دنیا کیوں پریشان ہے؟
یہ رجحان جہاں ایک قسم کے کاروبار کیلئے نقصان کا سبب بنتا ہے وہی اربوں ڈالر کے نئے کاروبار کا سبب بھی بن رہا ہے۔
امریکا، یورپ اور چین میں باقاعدہ ایسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو صارفین کے ریٹرنز یعنی واپس بھیجی گئی چیزیں ایمازون، ای بے یا علی بابا جیسی کمپنیوں کے وئیر ہائوسز سے سستے داموں خریدتی ہیں اور مناسب پروسیسنگ کے بعد انہیں آگے فروخت کر دیتی ہیں۔ انہیں لیکویڈیشن کمپنیاں کہا جاتا ہے۔
یہ کمپنیاں بچوں کے ڈائپر سے لے کر برانڈڈ لیپ ٹاپس ، کمپیوٹرز، مائیکروچپ بنانے والی مشینیں حتیٰ کہ پرانی فوجی گاڑیاں تک فروخت کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کافی تعداد استعمال شدہ چیزوں کی بھی ہوتی ہے۔
ان کمپنیوں نے الگ سے اپنے وئیر ہائوسز اور سٹورز بنا رکھے ہیں بلکہ آن لائن مارکیٹ میں بھی موجود ہیں۔یہ ریٹیلرز سے بڑی مقدار میں چیزیں خریدتی ہیں۔ ان کا معیار دیکھ پرکھ کر اور نئی پیکجنگ کرکے ای بے، علی بابا اور ایمازون جیسی مارکیٹ پلیس پر دوبارہ فروخت کر دیتی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ لیکوڈیشن مارکیٹ کے حجم میں 2008ء کے بعد سے دُگنا اضافہ ہوا ہے اور امریکا کی کولوریڈو سٹیٹ یونیورسٹی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020ء تک یہ مارکیٹ 644 ارب ڈالر کی ہو چکی تھی۔
تاہم اسی یونیورسٹی میں سپلائی چین مینجمنٹ کے پروفیسر زیک روجر کہتے ہیں کہ سرکاری نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اس مارکیٹ پر زیادہ تر مافیا کا قبضہ ہے کیونکہ اس میں دولت چھپانا اور ٹیکس چوری کرنا آسان ہے ۔ لوگ وئیر ہائوس کے پچھلے دروازے پر اپنا ٹرک لاتے ہیں اور نقد ادائیگی کرکے نکل لیتے ہیں۔
امریکا کی نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے مطابق 2021ء میں صارفین کی جانب سے سامان کی واپسی کی شرح 6 فیصد سے بڑھ کر 16.6 تک جا پہنچی جو 2020ء میں 10.6 فیصد تھی۔ یہ اعدادوشمار صرف ریٹیل بزنس کے ہیں۔
آپ اندازہ لگائیں کہ جس دکان کے سامان کی واپسی کی شرح 16 فیصد ہو تو اسے سالانہ کتنا نقصان ہوتا ہو گا اور اسی کا ہمسایہ اگر واپس آنے والا سامان خرید ے اور اپنی دکان کھول کر بیٹھ جائے تو کتنا کما سکتا ہے۔
ایمازون ، ای بے اور علی بابا جیسے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز پر اشیاء کی واپسی کی شرح اس سے بھی زیادہ ہے جو 2020ء میں 18 فیصد تھی اور 2021ء میں بڑھ کر 20.8 فیصد ہو گئی۔
تاہم اس قسم کا کاروبار کرنے والوں کیلئے بھی یہ سب کچھ آسان نہیں ہے کہ وئیر ہائوس سے چیز خریدی اور اپنی دکان پر رکھ کر بیچ دی بلکہ بعض چیز وں کی اصل قیمت کا کم از کم 66 فیصد اسے دوبارہ قابل فروخت بنانے پر خرچ ہو جاتا ہے اور منافع کم بچتا ہے کیونکہ اکثر اشیاء استعمال شدہ ہوتی ہیں لیکن بڑی مشینوں یا گاڑیوں میں مارجن زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ تو ہو گئیں کاروباری باتیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ واپس بھیجی گئی اشیاء ماحول کی تباہی میں بھی اچھا خاصا حصہ ڈال رہی ہیں۔
ایسی اشیاء جو دوبارہ فروخت نہ ہو سکیں وہ یا تو جلا دی جاتی ہیں اور بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسیں فضا میں شامل کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں یا پھر لینڈفل سائٹس پر پھینک دی جاتی ہیں جہاں انہیں مکمل طور پر تحلیل ہونے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
صرف امریکا میں ہر سال واپس شدہ اشیاء 5.8 ارب پائونڈ کچرا پیدا کرتی ہیں جنہیں خالی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے جبکہ انہیں جلانے سے سالانہ 16 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہو رہی ہے ۔
سالانہ لاکھوں اشیاء کی واپسی جہاں بڑے ریٹیلرز کیلئے پریشان کن مسئلہ بن چکی ہے وہاں ہزاروں چھوٹی بڑی کمپنیاں اربوں ڈالر کی اس بہتی گنگا میں اشنان کر رہی ہیں۔
یہ کاروبار اس لیے بھی ترقی کر رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں نوجوان نسل میں سسٹین ایبل شاپنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لوگ استعمال شدہ مگر سستی، معیاری اور پائیدار چیزیں خریدنا پسند کر رہے ہیں۔ اس سے وہ چیز جل کر یا کسی لینڈفل سائیٹ کا حصہ بن کر ماحول کی آلودگی کا سبب بننے سے بچ جاتی ہے اور کسی کیلئے بزنس کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔