ریلیف  کا لالی پاپ  معیشت کیلئے نقصان دہ

795

پاکستان میں  معاشی پالیسی سازی کا بحران ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ہر نیا آنے والا وزیراعظم عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔

موجودہ وزیراعظم شہباز شریف بھی گزشتہ دنوں اس صف میں کھڑے ہو گئے جب انہوں نے ٹی وی پر آ کر پٹرول کی قیمت کم کرنے کی نوید سنائی تاکہ عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکے ۔

لیکن پرافٹ کیلئے لکھے گئے اپنے کالم میں عزیر یونس کہتے ہیں کہ حکومتوں کی یہ سوچ  ہی پاکستان کی معاشی پالیسی سازی کے ناکارہ ہونے کی بنیادی وجہ ہے  کیونکہ وہ ہر دم یہی بات کرتی رہتی ہیں کہ وہ چیزوں کی قیمتیں کم کر کے عوام کو ریلیف دیں گی یا پھر ہر آنے والی حکومت سے ایسی توقعات  وابستہ کر لی جاتی ہیں۔

ایسے ہی جب بھی بجٹ آنا ہوتا ہے تو میڈیا پر یہی شور برپا ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف ملے گا یا نئے ٹیکسوں کے ذریعے مزید بوجھ لاد دیا جائے گا۔ حکومتی نمائندے بجٹ کو عوام دوست بتاتے ہیں تو اپوزیشن اسے عوام دشمن گردانتی ہے۔

کاروباری طبقے کو ٹیکسوں میں اضافے کا خدشہ ہوتا ہے تو وہ اخبارات  میں ایسے اشتہارات چھپواتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ انڈسٹری کا برا حال ہےجس کی وجہ سے ریکارڈ تعداد میں ملازمین بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

بجٹ میں جن سیکٹرز  کیلئے سبسڈی کا اعلان ہوتا ہے، اس کے کرتا دھرتا ٹی وی پر نمودار ہوکر وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی شان میں شکر یے کا قصیدہ پڑھتے ہیں اور حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کی وجہ سے روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا دنیا غذائی بحران کے دہانے پر ہے؟

سری لنکا معاشی بحران کا شکار کیوں ہوا؟

پانچ معاشی بحران جنہوں دنیا کو ہلا کر رکھ دیا

کم و بیش ایسی ہی گفتگو اور بیانات تب سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اشیائے خوراک بالخصوص  آٹے اور چینی کی قیمتیں بڑھیں تو عوام کی آہ و بکا بھی بڑھ جاتی ہے ۔

لیکن قیمتوں کے ہیر پھیر کے ذریعے عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے والا لیڈر ایسی پالیسیاں بنانے پر مجبور ہو جاتا ہے جو اصل میں براہ راست پاکستان کے معاشی زوال کا باعث ہیں۔ ایسے اقدامات سے مارکیٹ کی حرکیات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جو معاشی بحران کا سبب بنتا ہے اور نتیجتاَََ ملک دیوالیہ پن کی جانب جا سکتا ہے۔

عزیر یونس کے مطابق ایسی ایک مثال سابق وزیراعظم عمران خان کا وہ تباہ کن فیصلہ تھا جو انہوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی کرکے اور بعد ازاں قیمتیں منجمد کرکے کیا۔ اس فیصلے نے  آئی ایم ایف پروگرام روک دیا اور ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیے جن سے سری لنکا کی مانند بحران کاامکان بڑھ گیا۔

لیکن عمران خان کا مذکورہ فیصلہ واحد مثال نہیں۔ زرعی شعبے میں مداخلت دہائیوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ کموڈٹی سیکٹر کا گردشی قرضہ تقریباََ ایک کھرب روپے ہو چکا ہے۔ زرعی سیکٹر کے ایک تجزیہ کار نے بتایاکہ کموڈٹی سیکٹر کے صرف سود کی ادائیگی کیلئے حکومت کو مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔

سرکاری مداخلت نہ  صرف مارکیٹ کی حرکیات میں بگاڑ پیدا کرتی ہے بلکہ نجی سیکٹر بھی مزید سرمایہ کاری سے دور بھاگتا ہے۔ چونکہ مارکیٹ میں سرکاری مداخلت اور مرضی کی قیمتیں مقرر کرنا پاکستانی معیشت میں ایک روایت بن چکی ہے اس کے نیتجے میں آٹو موبائل سیکٹر سے لے کر زراعت تک کئی شعبے دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مجموعی طور پر معیشت ناپائیدار ہو چکی ہے اور دیگر ملکوں سے مسابقت میں پیچھے رہ گئی ہے اور عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا  رہے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پالیسی ساز پائیدار ترقی کا ماحول پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرتے جہاں ایسے تمام شعبوں کیلئے بآسانی سرمایہ مختص کیا جا سکتا اور حکومت کو قیمتیں مقرر کرکے ریلیف فراہم کرنے کا تردد نہ کرنا پڑتا۔

اس سوچ کو اپنا لیا جائے تو حکومتوں کا وقت اِس بحث میں نہ گزرے کہ مارکیٹ میں پٹرول، گندم اور چینی کی قیمت کتنی ہونی چاہیے اور کس کس مخصوص شعبے کو برآمدات اور درآمدات کی اجازت ملنی چاہیے  بلکہ  حکومت کی کوشش ہوتی کہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے لانی  ہے اور معیشت کے مختلف شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیسے کرنا ہے تاکہ ملکی پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور روزگار کے بہترین مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

مزید برآں اس قسم کا نقطہ نظر پالیسی سازوں کیلئے ریگولیٹرز کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کا باعث بنے گاجہاں ٹیکس کا پیسہ سبسڈیوں پر خرچ کرنے کیلئے نہیں بلکہ ایسے ادارے بنانے پر لگایا جائے گا جو مارکیٹ میں منصفانہ مسابقت کو فروغ دے سکیں۔

لیکن ایک عرصے سے پاکستانی لیڈرز گورننس کی ایک ایسی روایت سے چمٹے ہوئے ہیں جو فی زمانہ متروک ہو چکی ہے۔ وہی طرز حکمرانی جس میں بادشاہ سلامت بھوکی ننگی رعایا کو خاص خاص مواقع پر اشرفیاں لوٹایا کرتے تھے۔

لیکن عصرِ حاضر میں کسی معیشت کو اس طریقے سے نہیں چلایا  جا سکتا اور وزرائے اعظم سے تو یہ توقع ہر گز نہیں کی جاسکتی کہ وہ قوم سے خطاب میں پٹرول کی قیمت چند روپے کم کرنے کے اعلان کرتے پھریں بلکہ ہمارا تو ماننا یہ ہے کہ وزیراعظم کو مارکیٹ میں قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار ہی نہیں ہونا چاہیے ، ماسوائے ہنگامی حالات کے۔

اس سوچ کو بدلے بغیر پاکستانی معشت قرونِ وسطیٰ کی پالیسی سازی سے نہیں نکل سکتی جس نے معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ دنیا جدید ترین ذرائع اختیار کرکے معاشی ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔

جب تک ہمارے لیڈر ریلیف فراہمی والی سوچ پر توجہ مرکوز کیے رکھیں گے معیشت اس دلدل سے نہیں نکل سکے گی۔

از قلم: عزیر یونس 

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here