آج کل پاکستان میں موٹرسائیکل والے سے لے کر پٹرول پمپ کے مالک تک ہر کوئی تیل کی قیمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اگلی بار جب آپ گروسری سٹور پر جائیں تو جیب میں پیسے زیادہ ڈال لیجیے گا کیونکہ کوکنگ آئل کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
آخر عالمی منڈی میں خوردنی تیل بالخصوص پام آئل کیوں مہنگا ہو رہا ہے اور اس کا چوتھا بڑا امپورٹر پاکستان کس قدر متاثر ہو گا؟
گزشتہ کچھ ماہ کے دوران عالمی منڈی میں سویابین ، کینولا اور سن فلاور یعنی سورج مکھی کے تیل کی سپلائی میں کمی دیکھی گئی ہے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔
لیکن سستا سمجھا جانے والا اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پام آئل بھی اکتوبر 2021ء کے بعد سے بین الاقوامی کموڈٹی مارکیٹس میں چھ فیصد مہنگا ہو چکا ہے جس کے اثرات اشیائے خورونوش سمیت دیگر مصنوعات کی قیمتوں پر پڑیں گے جن کو بنانے میں پام آئل استعمال ہوتا ہے۔
عالمی منڈی میں کینولا اور سورج مکھی کے تیل کی سپلائی میں کمی کی بنیادی وجہ پیداوار میں کمی ہے۔
آبزرویٹری آف اکنامک کمپلیکسیٹی (او ای سی) کے مطابق کینیڈا، جو کہ کینولا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ، وہاں خشک سالی کی وجہ سے اکتوبر 2021ء میں کینولا کی پیداوار 13 سال میں کم ترین رہی۔ یہی حال ارجنٹائن کا تھا۔ نتیجتاً اُن پر منحصر ممالک نے متبادل کے طور پر پام اور سویا بین کی خریداری بڑھا دی۔
کچھ ایسی ہی صورت حال سن فلاور آئل کیساتھ بھی ہے۔ اس کی سپلائی روس یوکرین جنگ کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ۔ یہ دونوں ممالک دنیا کا 75 فیصد سن فلاور آئل پیدا کرتے ہیں جبکہ یوکرین اس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جنگ کی وجہ سے یوکرین کی 95 فیصد برآمدات رک گئیں جبکہ روس کی برآمدات بھی پابندیاں کی زد میں ہیں۔
لیکن پام آئل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔
انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا پام آئل پروڈیوسر اور ایکسپورٹر ہے۔ یہ عالمی پیداوار کا 60 فیصد پام آئل پیدا اور 53 فیصد بر آمد کرتا ہے۔ اس کی پیداوار کو خشک سالی یا کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں رہا بلکہ یہ 2021ء میں سالانہ 2.6 فیصد بڑھی ہے۔
اس کے باوجود گزشتہ سال اکتوبر سے انڈونیشیا میں پام آئل کی قیمت پراسرار طور پر پچاس فیصد بڑھ گئی۔ اکتوبر 2021ء میں ڈومیسٹک مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت ایک ڈالر فی لٹر تھی جو رواں ماہ کے آغاز میں تقریباََ ڈیڑھ ڈالر فی لٹر ہو گئی۔
آپ سوچیں گے کہ ایک ڈالر فی لٹر تو کچھ زیادہ نہیں ۔لیکن ڈالر کو ہلکا مت لیں۔ ایک امریکی ڈالر 14 ہزار سے زائد انڈونیشین روپیہ کے برابر ہے جس کا مطلب ہے کہ انڈونیشیا میں پام آئل کی فی لٹر قیمت 14 ہزار روپیہ سے بڑھ کر 21 ہزار روپیہ فی لٹر ہو گئی ۔ ملک میں سوا 2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں جن کیلئے پام آئل کی قیمتوں میں اضافہ ناقابل برداشت تھا ۔
اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان سمیت جن ملکوں کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں زوال پذیر ہے انہیں پام آئل کی درآمد کیلئے کتنا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔
جس طرح پاکستان کی حالیہ سیاست مہنگائی اور ڈالر کے گرد گھوم رہی ہے۔ایسے ہی انڈونیشیا کی سیاست پام آئل کے گرد گھومتی ہے۔
کھانے میں جو اہمیت ہمارے ہاں گندم کو حاصل ہے ۔ وہی انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پام آئل کو حاصل ہے لہٰذاقیمتوں میں 50 فیصد اضافہ تباہ کن ہے۔
اسی لیے انڈونیشین صدر جوکو ویدودو (Joko Widodo) نے ہنگامی طور پر پہلا قدم یہ اٹھایا کہ سٹریٹجک ذخائر میں سے ایک کروڑ 10 لاکھ لٹر پام آئل مارکیٹ میں جاری کرنے کا حکم دے دیا۔
اس کے باوجود قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو صدر نے پام آئل پر سبسڈی دینے، کوٹہ مختص کرنے اور ڈومیسٹک مارکیٹ میں قیمت فکس کرنے کا اعلان کر دیا۔
لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ذخیرہ اندوزی شروع ہو گئی اور مارکیٹ سے پام آئل غائب ہونا شروع ہو گیا۔ بالکل ہمارے والا وطیرہ!!
انڈونیشین حکومت نے پروڈیوسرز پر دبائو ڈالا اور برآمدات پر ٹیکس بڑھا دیے تو پام آئل تو مارکیٹ میں آ گیا لیکن ڈومیسٹک مارکیٹ میں قیمت 50 فیصد بڑھ گئی۔
اس پر حکومت نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے پام آئل کی برآمدات پر مکمل پابندی عائد کر دی لیکن اس پابندی نے عالمی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔
پھر طلب میں اضافے کی ایک وجہ چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی جانب سے بائیوفیول انرجی پروجیکٹس میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری بھی ہے کیونکہ ان پروجیکٹس میں بالخصوص ری نیو ایبل ڈیزل بنانے کیلئے پام آئل پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔
انڈؤنیشیا کی جانب سے برآمدات پر پابندی کے فیصلے سے عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی سپلائی تقریباََ 50 فیصد کم ہو گئی جس سے قیمتوں میں یکدم چھ فیصد اضافہ ہو گیا جس کا اثر سویابین سمیت دیگر اقسام کے خوردنی تیل پر بھی پڑا اور اس کی قیمت ساڑھے چار فیصد بڑھ گئی۔
پام آئل دنیا بھر میں بالخصوص غریب ملکوں میں سب سے زیادہ کھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ امیر ممالک اس کے مہنگے متبادل کی جانب بھی جا سکتے ہیں لیکن غریب ملکوں کے پاس ایسی کوئی آپشن نہیں ۔
بین الاقوامی سطح پر اشیائے خوراک کی قیمتیں پہلے ہی 30 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ ایسے میں پام آئل کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی نئی لہر لائے گا۔
پاکستان پام آئل کا چوتھا بڑا امپورٹر ہے۔پہلے نمبر پر بالترتیب بھارت، چین اور یورپی ممالک ہیں۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگز ایجنسی (پارکا) کےمطابق پاکستان اپنی ضرورت کا تقریباً 26 فیصد خوردنی تیل پیدا کرتا ہے جبکہ باقی 74 فیصد درآمد کرتا ہے جس کا بڑا حصہ انڈونیشیا سے منگوایا جاتا ہے ۔2021 میں پاکستان نے ساڑھے 34 لاکھ میٹرک ٹن پام آئل درآمد کیا۔
2020 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے 2 ارب 15 کروڑ ڈالر کا پام آئل درآمد کیا جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا تیل انڈونیشیا سے آیا۔
گزشتہ سال سے اب تک قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں ۔ اس لیے رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ یعنی جولائی 2021ء سے مارچ 2022ء تک پاکستان 2 ارب 44 کروڑ ڈالر کا پام آئل اور 10 کروڑ 38 لاکھ ڈالر کا سویابین آئل درآمد کر لیا ہے ۔
اگر آپ مارکیٹ میں دستیاب کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ پر اجزا کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو اُن میں پام آئل سرِ فہرست لکھا نظر آئے گا۔
یہ کاسمیٹکس، صابن ، شیمپو ، سرف، چاکلیٹ، بریڈ ، فرنیچر پالش اور موم وغیرہ بنانے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہےاور اس سے کشید شدہ اجزاء سوڈیم پامیٹ، پام ایسڈ اور سٹیئرک ایسڈ وغیرہ بھی کئی پروڈکٹس میں استعمال ہوتے ہیں ۔اس لیے ان تمام پروڈکٹس کی قیمتوں پر دباؤ آ سکتا ہے۔
پاکستان میں مختلف برانڈز کے کوکنگ آئل کی قیمتیں 450 روپے سے 530 روپے تک ہیں۔ مارکیٹ میں دستیاب کھلا کوکنگ آئل کئی اقسام کا مرکب ہوتا ہے وہ بھی تقریباََ ساڑھے چار سو روپے سے پانچ سو روپے میں ملتا ہے تاہم پام آئل چار سو روپے کے لگ بھگ مل جاتا ہے۔
تلی ہوئی اشیا میں زیادہ تر پام آئل کی ایک ریفائنڈ قسم ’پام اولین‘استعمال کی جاتی ہے چنانچہ سنیکس اور ریسٹورنٹ انڈسٹری، حلوائیوں کی دکانیں اور اسی قبیل کے دیگر کاروباروں کا بڑی حد تک انحصار پام آئل پر ہے ۔
اس لیے اگلی بار آپ کو سموسہ مہنگا ملے یا ناشتے کیلئے حلوہ پوری والا زیادہ دام مانگے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔