مرزا غالب آم کھانے کے شوقین تھے ۔انہوں نے اپنے کسی دوست کو خط میں لکھا ہے کہ “آم ہوں اور بہت ہوں۔”
پاکستان میں آم ہیں اور بہت زیادہ ہیں لیکن رواں سیزن شروع ہوتے ہی خبریں آنے لگیں کہ آم کی پیداوار 60 فیصد کم ہو گی ۔
اگرچہ رواں سال آم کی پیداوار کا حتمی اندازہ لگایا جانا ابھی باقی ہے مگر فی الوقت جو بھی اندازے لگائے گئے ہیں وہ زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔ پھر بھی مینگو لوورز میں تشویش پائی جاتی ہے۔
معمول سے زیادہ گرم موسم سے آم کے بیماری کی لپیٹ میں آنے، قبل از وقت پکنے یا پکے بغیر گرنے اور غیرمعیاری رہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وسط مارچ سے اپریل کے اختتام تک کا موسم آم کیلئے اہم ہوتا ہے۔ پنجاب میں آم کی کاشت والے علاقوں میں عموماََ اس دوران درجہ حرارت32 سے 34 ڈگری ہوتا ہے مگر رواں برس یہ37 سے 42 ڈگری تک جا پہنچا جس سے آم کے باغات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
اگرچہ سکڑتے ہوئےزرعی رقبے ، پانی کی کمی، کھادوں کے ناکافی استعمال، معیاری بیج کی عدم دستیابی اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث پاکستان پہلے ہی غذائی بحران کا شکار ہے۔انہی وجوہات کے سبب رواں برس گندم کی پیداوار 15 فیصد کم رہی۔ لیکن ان مسائل کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں بھی حصہ دار بن گئی ہیں۔
رواں برس مارچ معمول سے زیادہ گرم رہا اور سردیوں کے بعد بہار کی بجائے گرمی کی آمد کی وجہ سے سندھی آم مئی کے اوائل میں ہی پنجاب کی منڈیوں میں پہنچ گیا جو عموماََ مئی کے آخر میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارچ اپریل میں گرمی کی وجہ سے پھل درختوں سے گرگئے جنھیں بعد ازاں وئیر ہاوسز میں رکھ کر پکایا گیا۔
اس بار سندھڑی آم کی دس کلو کی پیٹی اٹھارہ سے بائیس سو روپے میں فروخت ہورہی ہے جبکہ ریٹیل میں یہ ڈھائی سے چار سو روپے فی کلو میں بیچے جا رہے ہیں۔
ہول سیل مارکیٹ میں اِن آموں کی دس کلو کی پیٹی آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال اسی پیٹی کی قیمت ساڑھے چار سو سے چھ سو روپے تک تھی۔ آم کی پیداوار میں کمی کا یہ پہلا اشارہ ہے۔
16 مئی کو ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ عبدالغفار گریوال کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہیٹ ویو کی وجہ سے رواں برس آم کی پیداوار 60 فیصد کم رہنے کا خدشہ ہے۔ آموں کی شیدائی قوم میں یہ خبر تیزی سے پھیل گئی مگر چند روز بعد پنجاب حکومت نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ صوبے میں آم کی پیداوار میں 8.9 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
تاہم دونوں رپورٹس کے اعداد و شمار ہی درست نہیں ۔ دراصل پیداوار کا تخمینہ اس طرح نہیں لگایا جاتا کہ رواں سال کتنی تعداد میں آم پیدا ہوئے ۔ بلکہ اس اندازے کی بنیاد زیر کاشت رقبہ اور فی ہیکٹر متوقع پیداوار پر ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں سندھ کے اعداد و شمار شامل نہیں تھے۔
مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی دیکھا دیکھی آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے بھی کہہ دیا کہ موسمیاتی اثرات کے باعث پیداوار میں 50 فیصد کمی متوقع ہے۔
پاکستان میں آم کی سالانہ اوسط پیداوار 17 لاکھ سے 18 لاکھ ٹن ہے اور 50 فیصد کمی کا مطلب ہے صرف نو لاکھ ٹن پیداوار۔
اس کے ساتھ ہی ایکسپورٹرز نے برآمدی ہدف میں 25 ہزار ٹن کمی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ رواں سیزن میں ایک لاکھ 25 ہزار ٹن آم ہی برآمد کریں گے جس سے 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر آمدن متوقع ہے۔
مگر ان عوامل کو بھی آم کی پیداوار میں کمی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایکسپورٹرز ایندھن کی قیمتوں میں اضافے، پیکجنگ، پراسیسنگ اور فریٹ کی لاگت کا رونا رو کر بھی برآمدی ہدف کم کر دیتے ہیں۔
دنیا میں سالانہ چار لاکھ 80 ہزار ٹن آم پیدا ہوتے ہیں اور اس کی پیداوار ہر سال 4.4 فیصد بڑھ رہی ہے جبکہ آم کی برآمدات اڑھائی ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔
آم کا سب سے بڑا درآمدکنندہ امریکا ہے جو عالمی مارکیٹ سے 28 فیصد آم خریدتا ہے ۔اس کے بعد یورپی یونین کا شئیر 22 فیصد ہے۔یہ ممالک پھل خرید کر ویلیو ایڈیشن کے بعد دنیا کو اربوں ڈالر میں خالص رَس، جوسز اور دیگر مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔
پاکستان تقریباََ 18 لاکھ ٹن آم کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے لیکن پاکستانی آم کی برآمدات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں اور ویلیو ایڈڈ برآمدات تو بالکل ناہونے کے مترادف۔ کیونکہ سارے آم تو ہم خود ڈکار جاتے ہیں۔
پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2000 کی دہائی میں پاکستان میں آموں کی پیداوار میں سالانہ 4.1 فیصد اضافہ ہورہا تھا مگر پیداوار میں یہ اضافہ زیر کاشت رقبے میں اضافے کی وجہ سے تھا جبکہ فی ہیکٹر پیداوار تو اصل میں کم ہو رہی تھی جس میں 2011-16 کے درمیان زیادہ تیزی دیکھی گئی۔اسی وجہ سے عالمی منڈی میں پاکستان کی برتر پوزیشن بھی متاثر ہوئی۔
پانی کی قلت، کاشتکاری کے بوسیدہ طریقوں، ایندھن کی بڑھتی قیمتوں ،پیکجنگ اور ترسیلی لاگت میں اضافے نے آم کے کاشتکاروں کو زیادہ منافع بخش فصلوں کی جانب موڑ دیا ہے۔
اگر پاکستان کو خوراک کے حوالے سے خودکفیل ہونا ہے تو اسے دو محاذوں پر لڑنا ہو گا ۔
پہلا : زرعی شعبے میں جدت لانا ہو گی
اور دوسرا : موسمیاتی بحران کیخلاف جنگی اقدامات کرنا ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلیاں کوئی مذاق نہیں ہیں۔ زرعی شعبہ ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہے کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے اوقات میں تبدیلی سے پیداوار میں کمی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آم کی فصل کے ساتھ جو ہوا اس کی بڑی وجہ بھی یہی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ آموں کے سب سے بڑے ایکسپورٹر بھارت میں بھی محسوس کیے گئے ہیں۔
اترپردیش کی مینگو بیلٹ سالانہ 40 سے 50 لاکھ ٹن آم پیدا کرتی تھی مگر رواں سال پیداوار محض 15 لاکھ ٹن رہی۔ وہاں اب کسان آم کے باغ لگانے سے ہچکچانے لگے ہیں۔
زرخیز زمین، میٹھے پانی کی دستیابی اور کاشتکاری کی طویل تاریخ رکھنے کے باعث ہم اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اپنی ضرورت کی خوراک نہ صرف پیدا کرسکتے ہیں بلکہ برآمد بھی کرسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا ہے ۔
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ کسی ایک فصل پر توجہ مرکوز کرکے اس کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور ایکسپورٹر بنا جائے۔ آم اور گندم کو ہی لے لیجئے۔ سٹوریج اور پراسیسنگ یونٹس قائم کرکے دونوں کی برآمد ات میں کئی گنا اضافہ کرکے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں 67 فیصد ا ور سندھ میں 23 فیصد آم پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے باغات کو مسلسل پانی چاہیے مگر رواں سال لوڈشیڈنگ اور مہنگے ڈیزل کی وجہ سے کاشتکاروں کو ٹیوب ویل چلانے میں مشکلات کا سامنا رہا ۔
حکومت کو چاہیے کہ باغات کے مالکان کو سستے قرضے فراہم کرے جس سے وہ سولر ٹیوب ویلز لگاکر مہنگی بجلی اور ڈیزل سے جان چھڑا سکیں۔
پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو چاہیے کہ آم کی کاشت والے علاقوں میں جدید ترین سٹوریج ہائوسز قائم کریں تاکہ پھل کی شیلف لائف بڑھائی جائے۔ پراسیسنگ یونٹس لگا کرویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں جو ملکی برآمدات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
باقی ۔۔۔مہنگے ہوں یا سستے! بس آم ہوں اور بہت ہوں۔
بلکہ یہاں پھر غالب یاد آ گئے ۔
ایک بار آم کھاتے ہوئے غالب کے دوست نے دیکھا کہ ایک گدھا آم کے ڈھیر تک گیا اور سونگھ کر واپس آ گیا۔
اس نے کہا، ’دیکھامرزا صاحب ، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔‘
غالب کا برجستہ جواب تھا، ’بالکل، گدھے آم نہیں کھاتے۔‘