ڈالر ویسے تو امریکا اور اس کی ریاستوں کی کرنسی ہے لیکن کچھ ممالک بھی اسے بطور قومی کرنسی استعمال کرتے ہیں۔
دنیا میں تقریباََ ایک کھرب 80 ارب امریکی ڈالر زیرگردش ہیں۔ چونکہ ڈالر عالمی کرنسی بن چکا ہے اس لیے مختلف ممالک زرمبادلہ ذخائر ڈالر میں ہی رکھتے ہیں اور عالمی تجارت کیلئے بھی اسی پر انحصار کیا جاتا ہے۔
کورونا وبا نے جہاں عالمی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس سے اربوں ڈالر کا سرمایہ نکل چکا ہے وہیں ڈالر کی ویلیو پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا۔ بلکہ ایک وقت پر دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی ویلیو میں 4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ آخر ڈالر اتنا طاقتور کیسے بنا؟
وبا کے باوجود ڈالر کی ویلیو میں اضافے کی وجہ معاشی ماہرین امریکی معیشت کی مضبوطی کو قرار دیتے ہیں۔
دراصل غیریقینی صورتحال میں انویسٹرز سرمایہ کاری کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں مارکیٹ میں آنے والے اتار چڑھائو میں بھی ان کا سرمایہ اپنی ویلیو برقرار رکھے۔ امریکی مارکیٹ کو ایسی ہی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جہاں ڈالر میں سرمایہ کاری انویسٹرز کے سرمائے کو تحفظ دے دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈالر کا تعلق دنیا کی سب سے بڑی اور مستحکم معیشت سے ہے۔
اگر کسی کو مکمل یقین بھی ہو کہ ڈالر کی قدر گر جائے گی تو بھی یہ کمی اتنی زیادہ نہیں ہوگی جتنی حالیہ ہفتوں کے دوران ترکی یا ارجنٹائن کی کرنسی کی قدر میں ہوئی۔
معاشی بحران میں ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے اور بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے لیکن جب بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو بحرانی کیفیت سے بچنے کے لیے امریکا کا مرکزی بینک یعنی فیڈرل ریزرو مداخلت کرتا ہے جس سے مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مثال کے طور پر کورونا وبا کے دنوں میں فیڈرل ریزرو نے دنیا کے دیگر بڑے بینکوں کے ساتھ اشتراک کیا تاکہ سرمایہ کاری اور اخراجات کیلئے ڈالرز کی کمی نہ ہو۔
مگر ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی کیسے بنا؟ َ
ایک طویل مدت تک ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی کرنسی کو سونے کے ساتھ منسلک کیے رکھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ طریقہ چھوڑ کر انہوں نے فوجی اخراجات کیلئے کاغذی کرنسی پر انحصار شروع کر دیا۔
اسی دوران امریکی ڈالر، جو ابھی بھی سونے سے منسلک تھا، برطانوی پاؤنڈ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی مضبوط ترین کرنسی بن گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ نے اتحادیوں کو بڑی تعداد میں اسلحہ فروخت کیا اور اس کی قیمت سونے میں وصول کی۔ کرنسی کو سونے سے منسلک رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1947 تک امریکہ کے پاس دنیا کے 70 فیصد سونے کے ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ نتیجتاََ دیگر ملکوں کی معیشتیں کمزور ہونے لگیں۔
1944ء میں امریکا اور اس کے 44 اتحادی نیو ہیمپشائر میں سرجوڑ کر بیٹھے اور طے کیا کہ ان کی کرنسیاں امریکی ڈالر کیساتھ منسلک ہوں گی۔
اس کے بعد مختلف ملکوں کے مرکزی بینک ڈالر جمع کرنے لگے اور ان ڈالرز کو سونے کے بدلے فروخت کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں امریکا کے سونے کے ذخائر میں کمی آنے لگی اور ڈالر کے استحکام کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے۔
1971ء میں صدر رچرڈ نکسن نے اچانک ڈالر کو سونے سے الگ کرنے کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ نکسن کے اس اقدام سے دنیا میں فری فلوٹنگ ایکسچنج ریٹ کے تصور نے جنم لیا جس کا مطلب تھا کہ ایکسچینج ریٹ اب گولڈ ریزروز کے ساتھ منسلک نہیں ہو گا بلکہ اس کا تعین مارکیٹ فورسز کریں گے۔ غیرمستحکم مارکیٹس اور مہنگائی کے باوجود امریکی ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں اب تک کامیاب ہے۔ آج دنیا کی 88 فیصد فارن ایکسچینج ٹرانزیکشنز ڈالر میں کی جاتی ہیں۔
حالیہ دہائیوں میں امریکا پر ڈالر کو سٹریٹجک اور جیوپولیٹیکل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام بھی لگا ہے۔ مثال کے طور پر ایران اور شمالی کوریا پر تجارت کیلئے ڈالر استعمال کرنے پر پابندی کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
بعض ملکوں کا ڈالر پر انحصار اتنا زیادہ ہے کہ وہاں یہ روزمرہ کی خریدوفروخت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کمبوڈیا میں آپ اے ٹی ایم سے بھی ڈالر نکال سکتے ہیں۔
عالمی تجارت بھی ڈالر میں ہوتی ہے۔ کوئی پاکستانی کمپنی کسی کینیڈین ڈیپارٹمنٹل سٹور کو جیولری فروخت کرے اور مذکورہ سٹور اس کی ادائیگی کینیڈین ڈالر میں کرنا چاہے تو قوی امکان ہے کہ پاکستانی کمپنی اس ادائیگی کو یہ کہہ کر رد کر سکتی ہے کہ کینیڈین ڈالر پاکستان میں استعمال نہیں ہوتا۔ لہٰذا فریقین امریکی ڈالر میں خریدوفروخت کریں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں امریکی ڈالر کے علاوہ بھی مستحکم کرنسیاں موجود ہیں جیساکہ سوئس فرانک یا سنگاپور ڈالر۔ لیکن انکی اہمیت ڈالر جتنی کیوں نہیں؟
تو جواب یہ ہے کہ سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ضرور ہیں لیکن امریکا جتنی بڑی اور مضبوط معیشت اور عالمی سطح پر اثرورسوخ نہیں رکھتے۔
دنیا بھر میں مرکزی بینکوں کے زرمبادلہ ذخائر کا 60 فیصد امریکی ڈالر پر مشتمل ہے جبکہ یورو 21 فیصد، جاپانی ین 6 فیصد اور برطانوی پاؤنڈ کا حصہ 6 فیصد ہے۔
تو کیا کوئی کرنسی امریکی ڈالر کو ٹکر دینے یا اس کی اجارہ داری ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
ایسا نہیں کہ ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس حوالے سے آواز بلند ہو رہی ہے کہ عالمی ریزرو کرنسی کو تبدیل کیا جائے۔ یہ مطالبہ چین اور روس کے علاوہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کیا جا چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں کچھ ممالک کے مرکزی بینک اپنے ذخائر چینی یوان میں رکھنا شروع ہوئے ہیں۔ امریکی پابندیوں کا خطرہ بھی کئی حکومتوں کے نزدیک تجارت میں ڈالر کو بائی پاس کرنے کا سبب بنا ہے۔
2018ء میں جرمن وزیر خارجہ نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ “امریکی اثرورسوخ سے آزاد ادائیگی کے چینلز قائم کرکے یورپ کی خودمختاری کو مزید مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔”
بعض معاشی حلقوں کا ماننا ہے کہ مستقبل کی ریزرو کرنسی کا کسی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ انہیں امید ہے کہ کرپٹو کرنسی ایک دن ڈالر کی اجارہ داری ختم کر دے گی۔
لیکن اگر ایسا ہوا بھی، تو امریکی ڈالر کی اہمیت میں راتوں رات کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اگرچہ دنیا میں متبادل ریزرو کرنسی کا مطالبہ تو کیا جا رہا ہے مگر فی الوقت کسی بھی ملک میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ امریکا سے یہ اعزاز جلد چھین سکے۔