کراچی: سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے کاروباری آسانیوں کو فروغ دینے کے ضمن میں بیرونِ ملک تجارتی ادائیگیوں کے لیے فارن ایکسچینج مینوئل میں تبدیلیوں کا اعلان کر دیا۔
مرکزی بینک کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ فارن ایکسچینج مینوئل کے چیپٹر 14 میں کی گئی اہم تبدیلیوں کا تعلق اشیاء سازی کے شعبے کے لیے رائیلٹی، فرنچائز اور ٹیکنیکل (آر ایف ٹی) فیس کی ترسیلات کے علاوہ سروسز کے حصول، بیرونی کمپنیوں کی برانچوں کی جانب سے منافع کی منتقلی سے ہے۔
اس کے علاوہ ان فارن ایکسچینج مینوئل میں تبدیلیوں کا تعلق کمپنیوں کے ہیڈ آفس اخراجا ت کی ترسیل، کاروباری عمل کی آئوٹ سورسنگ (بی پی او)، نقل و حمل (لاجسٹکس) سے متعلق ترسیلات اور بحری جہاز یا طیارہ چارٹرڈ کرنے کے اخراجات کی براہ راست مالک کو ادائیگی سے ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
سٹیٹ بینک کا ڈیجیٹل چیک کلیئرنگ اور پیمنٹس کیلئے یونیفائیڈ کیو آر کوڈ متعارف کرانے کا فیصلہ
کاروباری آسانی اور سرحد پار تجارتی انڈیکس میں بہتری، پاکستان ایشیا میں پہلے نمبر پر آ گیا
مرکزی بینک کے مطابق اشیا سازی کے شعبے کے لیے رائیلٹی، فرنچائز اور ٹیکنیکل (آر ایف ٹی) فیس کی ترسیلات کے حوالے سے سٹیٹ بینک نے آر ایف ٹی فیس کی ترسیلات کے حوالے سے پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے۔
نظرِثانی شدہ پالیسی کے تحت بینکوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ فریقوں کے معاہدوں کو رجسٹر کریں اور آر ایف ٹی فیس کی ترسیلات کی اجازت دیں۔ کاروباری طبقے کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے اس قسم کی فیس کی ترسیلی حد بھی بڑھا دی گئی ہے۔
چنانچہ اَب اشیا سازی کے شعبے کے ادارے ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے لیے دس لاکھ امریکی ڈالر اور خالص فروخت کا 8 فیصد تک (ٹیکس اور درآمدی اشیاء کی لاگت منہا کرکے) اپنے متعلقہ بینک کے ذریعے بھجوا سکتے ہیں۔
مزید برآں برآمدات سے متعلق مینوفیکچرنگ پر رائیلٹی کی ایک نئی کیٹیگری متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت غیرملکی اداروں کے ساتھ اشتراک کرنے والے پاکستانی ادارے خالص برآمدی فروخت کی 10 فیصد تک رقم (ٹیکس اور درآمدی اشیا کی لاگت منہا کرکے) انہیں بطور recurring رائلٹی بھجوا سکتے ہیں۔
خدمات کے حصول کے حوالے سے کاروباری اداروں کا بیرون ملک سے حاصل کی جانے والی ڈیجیٹل خدمات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے جس کے پیش نظر سٹیٹ بینک نے 62 معتبر (whitelisted) ڈیجیٹل خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو دی گئی سالانہ حد دو لاکھ امریکی ڈالر سے بڑھا کر چار لاکھ امریکی ڈالر کر دی ہے۔
مزید یہ کہ اُن کمپنیوں سے، جو اس فہرست میں شامل نہیں ہیں، ڈیجیٹل خدمات حاصل کرنے کے لیے ترسیلات کی سالانہ حد بھی 25 ہزار امریکی ڈالر سے بڑھا کر 40 ہزار امریکی ڈالر کر دی گئی ہے۔
ڈیجیٹل خدمات فراہم کرنے والوں کے علاوہ بیرون ملک سے دیگر خدمات حاصل کرنے والے کاروباری اداروں کی سہولت کے لیے سٹیٹ بینک نے اس حد کو 10 ہزار امریکی ڈالر سے بڑھا کر 25 ہزار امریکی ڈالر کر دیا ہے۔
بیرون ملک سے خدمات کے حصول کی درخواست پر بینک اس رقم کی حد تک کارروائی کر سکتے ہیں، اس حد سے زائد ترسیلات بھجوانے کے لیے سٹیٹ بینکنگ سروسز کارپوریشن (بی ایس سی) کے فارن ایکسچینج آپریشنز ڈیپارٹمنٹ (ایف ای او ڈی) کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا پڑے گا۔
بیرونی کمپنیوں کی برانچوں کی جانب سے منافع ہیڈ آفس اخراجات کی ترسیل کے حوالے سے بیرونی کمپنیوں کی برانچوں کو قانونی ادائیگیوں، جیسے منافع، ہیڈ آفس کے اخراجات اور کاروبار ختم کرنے سے ملنے والی رقوم وصولیوں کی ترسیل آسان بنانے کےلئے سٹیٹ بینک نے موجودہ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کی ہیں اور مجاز بینکوں کو اس طرح کی ترسیلات کی اجازت دی ہے تاکہ سٹیٹ بینک کو کم سے کم مداخلت کرنی پڑے۔
پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں کی وہ برانچیں جو منافع، ہیڈ آفس کے اخراجات، کاروبار ختم کرنے پر رقوم کی ترسیل کا ارادہ رکھتی ہیں، اپنے بینک کو شعبہ زرِ مبادلہ پالیسی سٹیٹ بینک سے نامزد کروائیں گی، جس کے بعد نامزد بینک ان مدات کے تحت ترسیلات زر بھیج سکتے ہیں۔
ضمنی سرگرمیوں کے لیے کاروباری عمل کی آئوٹ سورسنگ (بی پی او) کے لئے مہارت سے فائدہ اٹھانے اور متعلقہ اخراجات کم کرنے کی غرض سے کمپنیاں اپنے معاونتی وظائف متعلقہ یا بیرون ملک تھرڈ پارٹی کو آئوٹ سورس کرکے اپنے کاروباری عمل کی ساخت تیزی سے تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔
چنانچہ سٹیٹ بینک نے ان کمپنیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے کاروباری عمل کی آئوٹ سورسنگ برائے ضمنی سرگرمیوں کے عنوان سے فارن ایکس چینچ ضوابط متعارف کرا دیے ہیں۔
اب اپنے ضمنی کاروباری پراسیس کی آئوٹ سورسنگ کی خواہش مند مقامی (resident) کمپنیاں کسی بینک کے توسط سے ایس بی پی بی ایس سی کے شعبہ ایف ای او ڈی سے رابطہ کرکے ان رہنما ہدایات پر مبنی معاہدے کی تصدیق کرا سکتی ہیں۔ تصدیق کے حصول کے بعد متعلقہ بینک قابلِ اطلاق ضوابط کے تحت ترسیلات بھیج سکتا ہے۔
نقل و حمل (لاجسٹکس) سے متعلق ترسیلات کے لئے سٹیٹ بینک نے نقل و حمل سے متعلق بیرونِ ملک ادائیگیوں جیسے کنٹینر رکھنے کے چارجز، پورٹ ڈیموریج چارجز وغیرہ کے لیے مخصوص ہدایات جاری کر دی ہیں جس کا مقصد زرمبادلہ کے ضوابط کو موجودہ کاروباری ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ نئی متعارف پالیسی کے تحت ایک مخصوص حد تک ادائیگیاں کرنے کی بینکوں کو اجازت دیدی گئی ہے۔
بحری جہاز یا طیارہ چارٹر کرنے کے اخراجات کی براہ راست مالک کو ادائیگی کے حوالے سے سٹیٹ بینک نے پاکستان میں کاروباری طبقے کو سہولت دینے کی غرض سے اپنے ضوابط پر نظر ثانی کی ہے اور تجارتی بینک اَب اسٹیٹ بینک سے پیشگی اجازت کے بغیر اس ضمن میں ادائیگیاں کر سکیں گے۔