اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان میں پے پال کی جانب سے سروس شروع نہ کیے جانے پر سٹیٹ بینک اور وزارت تجارت سے ایک ماہ رپورٹ طلب کر لی۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں چئیرمین ایف بی آر عاصم احمد اور ممبر ایف بی آر ڈاکٹراشفاق نے ایف بی آر کی کارگردگی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔
ایف بی آر کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ تین مالی سالوں کے دوران سیکشن 144(4) کے تحت نان فائلرز کو ایک کروڑ 27 لاکھ 85 ہزار 497 نوٹسز بھجوائے گئے، جس پر 13 لاکھ 15 ہزار 920 افراد نے گوشوارے جمع کرائے، کل انکم ٹیکس کا تخمینہ 64 ارب 29 کروڑ 90 لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن دو ارب 58 کروڑ 90 لاکھ روپے وصول ہوئے۔
کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ 64 ارب انکم ٹیکس کا تخمینہ ہے اور محض دو ارب 58 کروڑ 90 لاکھ روپے وصول ہوئے، اس سے ایف بی آر کی اہلیت اور کارگردگی پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جس پرچئیرمین ایف بی آر نے کہا کہ باقی ماندہ رقم وِدہولڈنگ اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں وصول کی گئی۔
چئیرمین کمیٹی اور اراکین نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین واضح کر چکے ہیں کہ ایف بی آر لوگوں کو ہراساں نہیں کرے گا، مگر اس کے باوجود نوٹسز بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے جس پر ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ تمام نوٹسز خود کار طریقہ کار اور قانون کے مطابق جاری کئے جاتے ہیں۔ ایف بی آر نے ٹیکس نظام میں انسانی مداخلت کم کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں جس کے اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز کے سوال پر ممبر ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے فائلرز کی تعداد بڑھانے کیلئے ہدایات ملتی رہتی ہیں، ایف بی آر نے نظام کو سہل بنانے کیلئے جامع اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کا متوازن استعمال کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے اجلاس میں بتایا کہ ایف بی آر سمیت سرکاری اداروں میں بدعنوانی، اہلیت اور بدانتظامی کی شکایات ہیں، 27 لاکھ ٹیکس دہندگان میں سے صرف 15 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں، ایک لاکھ 86 ہزار سیلز ٹیکس دہندگان میں صرف 39 ہزار سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں جبکہ 39 ہزار سیلز ٹیکس دہندگان تو صرف جڑواں شہروں میں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر نظام کو شفاف نہ بنایا گیا تو مسائل موجود رہیں گے۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے انہیں سزا ملنی چاہئیے تاہم غلط نوٹس جاری کرنے والے ایف بی آر کے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئیے۔
اس پر ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ ادارہ میں کرپشن کے خلاف موثر طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور بدعنوانی پر افسروں سے لیکر نچلی سطح تک کارروائی کی جاتی ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے فلیٹ ریٹ کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ریونیو میں اضافہ ہو گا۔
ایف بی آر کے حکام نے بتایا کہ ریٹرن فائل کرنے کے بعد جائزہ کاری کے عمل میں اگر کسی نے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کی ہو تو اسے باقاعدہ نوٹس جاری کئے جاتے ہیں، گزشتہ تین برسوں میں اس ضمن میں چھ لاکھ 83 ہزار 141 نوٹس جاری کئے گئے جن کی مالیت 13 کھرب 47 ارب 51 کروڑ 50 لاکھ روپے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر کیس عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور مقدمات میں برسوں لگتے ہیں حالانکہ آئین اور قوانین کے مطابق ریونیو سے متعلق امور میں مقدمات کی سماعت چھ ماہ میں مکمل ہونی چاہئیے۔ اس ضمن میں ایف بی آر نے تنازعات کے متبادل حل کا طریقہ کار بھی وضع کیا ہے جس پرعمل درآمد ہو رہا ہے۔
سینیٹر اعظم سواتی کے سوال پر ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ جاری مالی سال کیلئے ٹیکس محصولات کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔ چئیرمین کمیٹی نے بتایا کہ ٹیکس کلکٹوریٹ پر فائلرز کی تعداد بڑھانے کیلئے غیرضروری دبائو نہیں ہونا چاہئیے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ قوم صدقہ و خیرات دینے میں سب سے آگے ہے، اگر ایف بی آر کی جانب سے سہولیات فراہم کی جائیں تو شہری خوشی سے ٹیکس دیں گے۔
اجلاس میں ملک میں آن لائن ادائیگی کے بین الاقوامی نظام پے پال کے آغاز کے معاملہ کا جائزہ لیا گیا، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے پے پال پر کوئی پابندی نہیں، اس وقت پاکستان میں ماسٹر کارڈ اور دیگر بین الاقوامی ادائیگی کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش، ترکی اورسری لنکا میں بھی پے پال نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا۔
سیکرٹری خزانہ یوسف خان نے کمیٹی کوبتایا کہ پاکستانی فروخت کنندگان ایمازون پر اپنی مصنوعات بیچ سکتے ہیں، پے پال کے آغاز کیلئے وزارت تجارت اور سٹیٹ بینک کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ چئیرمین کمیٹی نے ایک ماہ کی مدت میں اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
پنشنرز سے متعلق ایک پیٹیشن پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر پنشن کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، گزشتہ مالی سال میں اس کا حجم 400 ارب روپے سے زائد تھا، پے اینڈ پنشن کمیشن اس حوالے سے قابل عمل منصوبہ پر کام کر رہا ہے۔ اس نظام میں بہتری کیلئے عالمی بینک سے بھی معاونت حاصل کی جا رہی ہے۔
پنشنرز کی پنشن بڑھانے سے متعلق سوال پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، 10 ہزار روپے سے کم ماہوار پنشن لینے والوں کو احساس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن سے متعلق تمام تجاویز پے اینڈ پنشن کمیشن کو فراہم کی جائیں گی۔ اجلاس میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کمیشن کی کارگردگی پر بریفنگ بھی پیش کی گئی۔