مشترکہ مفادات کونسل نے نیشنل الیکٹریسٹی پالیسی کی متفقہ منظوری دیدی

نئی الیکٹریسٹی پالیسی کے تحت سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جائے گی، اگر اس نوعیت کی پالیسی 15 برس قبل نافذ کی ہوتی تو آج توانائی کا شعبہ مشکل میں نہ ہوتا، وزیر توانائی حماد اظہر

835

اسلام آباد: مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے نیشنل الیکٹریسٹی پالیسی 2021ء کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔

سوموار کو وزیراعظم آفس کے میڈیا وِنگ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی 2021ء کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔

اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے بتایا کہ نئی الیکٹریسٹی پالیسی کے تحت سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جائے گی، اگر اس نوعیت کی پالیسی 15 برس قبل نافذ کی ہوتی تو آج توانائی کا شعبہ مشکل میں نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ نئی الیکٹرسٹی پالیسی آئندہ دس سال کیلئے بنائی گئی ہے، اس پالیسی کے تحت ملک بھر میں توانائی منصوبوں کے حوالے سے اوپن بڈنگ ہو گی کہ کہاں پراجیکٹس لگانے ہیں۔ پالیسی کی روشنی میں ذیلی شعبوں کیلئے 10 سے 12 پالیسیاں تشکیل دی جائیں گی، جس میں ٹرانسمیشن لائنز کو بہتر بنانے اور اَپ گریڈیشن سمیت مختلف منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی میں متعین کردہ اصولوں کی بنیاد پر نیا نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جائے گا۔ پالیسی کا مرکزی ہدف مسابقانہ ماحول پیدا کرنا، کم لاگت منصوبے لگانا اور شفافیت برقرار رکھتے ہوئے توانائی کے شعبے کو وسعت دینا ہے، پاور جنریشن اور ٹرانسمیشن اس پالیسی کا لازمی حصہ ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کہ اس پالیسی پر 2005ء سے کام ہو رہا تھا لیکن سابق حکومتوں نے سنجیدگی نہیں دکھائی، موجودہ حکومت نے پالیسی سازی کو سنجیدگی سے لیا، گزشتہ دو ماہ کے دوران صوبوں کے ساتھ ایک سو سے زائد اجلاس ہوئے اور بالآخر تمام صوبوں نے اس پر اتفاق کیا۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ملک میں ترسیلی لائن 24 ہزار میگاواٹ کا بوجھ برداشت کر رہی ہے، اسے بہتر بنایا جائے گا، آئندہ مالی سال کیلئے بجلی کے تقسم کار نظام کو بہتر بنانے کیلئے 100 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مہنگے معاہدوں کی وجہ سے آج ملک میں بجلی مہنگی ہے۔ ہم آنے والی نسلوں کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ سستی بجلی سب کو مہیا ہو سکے۔ فرسودہ ترسیلی نظام اور گردشی قرضوں جیسے چیلنجز درپیش ہیں تاہم حکومت جلد ان تمام مسائل پر قابو پا لے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here