’ٹیکس چوری اور غیرقانونی تجارت سے قومی خزانے کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان‘

غیر دستاویزی معیشت جی ڈی پی کے 40 فیصد، سالانہ ٹیکس چوری کا حجم 6 فیصد کے برابر، چائے کی درآمد پر 35 ارب، سگریٹ 80 ارب، ٹائرز 50 ارب، لبریکنٹ 40 ارب، ادویات 45 ارب، رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے 65 ارب روپے ٹیکس چوری کیا جاتا ہے، رپورٹ

877

لاہور: پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں ٹیکس چوری اور غیرقانونی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔

فرانسیسی مارکیٹ ریسرچ فرم ’IPSOS‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 40 فیصد کے برابر ہے جبکہ سالانہ ٹیکس چوری کا حجم جی ڈی پی کے 6 فیصد کے برابر ہے۔

رپورٹ میں پانچ ایسے شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ ٹیکس چوری ہوتی ہے اور جہاں سے ملکی خزانے کی آمدن میں سب سے بڑی نقب لگائی جاتی ہے۔ ان شعبہ جات میں چائے، تمباکو، ٹائرز، لبریکنٹ، فارما پروڈکٹس اور رئیل اسٹیٹ شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چائے کی درآمد کے دوران سالانہ 35 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جاتی ہے، عام طور پر بڑی مقدار میں کھلی چائے کی درآمد پر ٹیکس چوری کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کے راستے پاکستان سمگل کر کے لائی جاتی ہے اور مختلف شہروں میں اس کی ترسیل کر دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایف بی آر کا چھاپہ، بسکٹ کمپنی کی کروڑوں کی ٹیکس چوری پکڑی گئی

فیصل آباد میں جعلی انوائسز پر ٹیکس چوری کرنے والی کمپنی پکڑی گئی

’دنیا میں سالانہ 34 ملین نرسوں کی تنخواہ کے برابر ٹیکس چوری‘

’شوگر، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور سگریٹ انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی ہے‘

ریسرچ فرم کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی غیرقانونی تجارت مارکیٹ کے مجموعی حجم کے 40 فیصد کے برابر ہے اور اس میں ٹیکس چوری کے وسیع امکانات ہیں، تمباکو انڈسٹری میں 98 فیصد ٹیکس صرف دو کمپنیاں دیتی ہیں چو پوری انڈسٹری کا 60 فیصد سگریٹ تیار کرتی ہیں۔ بقیہ 40 فیصد انڈسٹری بغیر ٹیکس کے چل رہی ہے اور اس شعبے میں سالانہ 80 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔

اسی پر بس نہیں بلکہ آٹو سیکٹر میں بھاری پیمانے پر ٹیکس چوری کی جاتی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ایک کروڑ ٹائر استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سے 20 فیصد مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں جبکہ 15 فیصد درآمد کیے جاتے ہیں، بقیہ 65 فیصد کا خلاء غیرقانونی مینوفیکچرنگ یا افغانستان کے راستے سمگل کرکے پورا کیا جاتا ہے اور اس شعبے میں سالانہ 50 ارب روپے کا ٹیکس بچایا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں لبریکنٹ انڈسٹری کا مجموعی مالی حجم 120 ارب روپے ہے جبکہ اس سیکٹر میں سالانہ 40 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ادویات کی سمگلنگ یا کاپی شدہ ناقص ادویات کی فروخت سے فارما سیکٹر بھی قومی خزانے کو سالانہ 45 ارب روپے کی ٹیکس آمدن سے محروم کر رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے رئییل اسٹیٹ سیکٹر سالانہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوتی ہے تاہم اس سیکٹر میں بھی ہر سال 65 ارب روپے کا ٹیکس چوری کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ایف بی آر نے سال 2019-20 کے دوران رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے محض 25 ارب روپے ٹیکس جمع کیا تھا اور اسے 55 ارب روپے سے 65 ارب روپے کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان میں تمام شعبوں کے اعدادوشمار کی عدم دستیابی اور ڈیٹا تک رسائی کی راہ میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کی وجہ سے کبھی بھی ایسی تحقیق نہیں کی گئی کہ ملک میں مجموعی طور پر کتنے ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here