ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستانی معیشت کو سالانہ تین ارب 80 کروڑ ڈالر نقصان کا سامنا

593

لاہور: ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) اور ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے ‘کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل’ کے نام سے ایک مشترکہ تحقیق میں اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کو آئندہ دو دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2.5 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سالانہ 3.8 ارب ڈالر معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ 

تحقیق میں پاکستان کو اوسط درجہ حرارت بڑھنے کے نتیجے میں معاشی و سماجی نقصانات کے لحاظ سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا کہ “پاکستان کو اوسط درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ کا سامنا ہے 1986 سے 2005ء کی بنیادی مدت کے مقابلے میں 2090ء کی دہائی تک 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ سے منفی 4.9 ڈگری سینٹی گریڈ سے عالمی اوسط درجہ حرارت سے ممکنہ طور پر بڑھ رہا ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ ڈیزاسٹر رسک لیولز کا سامنا ہے جسے 2020ء تک انفارم رسک انڈیکس میں 191 ممالک میں سے 18ویں درجہ پر رینک کیا گیا”۔

2080ء سے 99ء کی دہائی تک زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کے اندازے کے تحت عالمی اوسط درجہ حرارت کا اندازہ 3.7 ڈگری سینٹی گریڈ لگایا گیا ہے۔

اندازے سے پتا چلتا ہے کہ کئی اہم خوراک اور کیش کروپس بشمول کپاس، گندم، گنے، مکئی اور چاول کی فصلوں کی پیداوار میں کمی آئے گی جبکہ ماحولیاتی تبدیلی کی شدت اور آب و ہوا کے واقعات کی تعداد میں اضافے سے خاص کر پسماندہ افراد اور کسانوں کے لیے تباہی کے خطرے میں اضافہ ہو گا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے شہروں میں سخت اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی اداروں نے اپنی تحقیق میں مزید کہا کہ شہری آبادکاری کے تناظر میں شہروں میں درجہ حرارت کی بڑھوتری دیکھی جائے گی جس کے اثرات کی وجہ سے لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں درجہ حرارت بڑھے گا”۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here