اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئندہ مالی سال 2021-22ء کا سالانہ بجٹ پیش کرنے کیلئے سپیکر قومی اسمبلی سے مزید وقت مانگ لیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے بار بار وزیر خزانہ کی تبدیلی اور حتمی فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ سے وزارت خزانہ میں معمول کی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بجٹ کی تیاری بھی وقت پر نہیں ہو سکی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ جون کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اصرار ہے کہ بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں ہی پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ بجٹ اجلاس کم از کم تین ہفتوں تک جاری رہے گا اور اگر حکومت وسط جون میں بجٹ اجلاس بلاتی ہے تو مہینے کے اختتام تک اجلاس ختم نہیں ہو گا۔
زراعت کے حوالے سے اجلاس
دوسری جانب گزشتہ روز وزیر خزانہ شوکت ترین سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے غذائی تحفظ جمشید اقبال چیمہ نے ملاقات کی۔ اس دوران زرعی اجناس کی فارم گیٹ قیمتوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود، سیکرٹری خزانہ اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارت غذائی تحفظ و تحقیق بھی موجود تھے۔
ملاقات کے دوران فارم گیٹ قیمتوں کے موجودہ طریقہ کار اور زرعی اجناس بالخصوص جلد خراب ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کی مارکیٹ یا فروخت کے قریبی مرکز تک ترسیل کے حوالہ سے کاشت کاروں کی مشکلات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران زرعی شعبے میں آڑھتی کے کردار کا بھی جائزہ لیا گیا جو چھوٹے کاشت کاروں کی محنت کے عوض منافع کما رہا ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ زراعت کے شعبہ میں معاشی استحکام کا حصول ایک بڑا چیلنج ہے۔ کاشت کاروں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی سے زرعی پیداوار میں اضافہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی پیداوار کی مناسب قیمت وصول کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ مڈل میں یا آڑھتی کا کردار موثر طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے، آڑھتی کے کردار کے خاتمہ سے کاشت کار اپنی پیداوار کی 35 تا 40 فیصد زیادہ قیمت وصول کر سکیں گے۔
وزیر خزانہ نے کاشت کاروں کو بلاسود قرضے دے کر زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں کی جانب سے چھوٹے قرضوں کی فراہمی سے انہیں کھادیں، زرعی ادویات اور دیگر مداخل خریدنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ چھوٹے کاشت کاروں کو بلاسود قرضوں کی دستیابی سے زرعی شعبہ میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی اور آڑھتی کی وجہ سے کاشت کار کے استحصال کا بھی خاتمہ ہو گا۔ زیادہ سہولیات کے ساتھ بلاسود قرضوں کی فراہمی سے پائیدار زراعت میں مدد ملے گی۔ انہوں نے ہدایت کی کہ چھوٹے کاشت کار طبقہ کو مائیکرو کریڈٹ کی سہولت کا طریقہ کار وضح کیا جائے جس کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے ایگرو انڈسٹری کی بہتری کے مختلف امور کے حوالہ سے ملک بھر میں کاشت کاروں کی سہولت کیلئے اجناس ذخیرہ کرنے کے گوداموں اور کولڈ سٹوریج کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا جس سے جلد خراب ہونے والی زرعی پیداوار اور اجناس کی فروخت کے مقام تک محفوظ ترسیل کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔