لاہور: پنجاب حکومت نے صوبے میں غیرقانونی ہاؤسنگ سکیموں کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیشن تشکیل دے دیا۔
کمیشن کے چئیرمین سابق جج ہوں گے جنہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے تعینات کیا جائے گا، دیگر ارکان میں کم از کم بیس سالہ تجربے کے حامل ٹاؤن پلانر، سول انجنئیرز، ڈائریکٹر ماحولیات اور ایک قانونی مشیر شامل ہوں گے۔
اس کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے دستخط کیے ہیں۔ کمیشن قائم کرنے کا بنیادی مقصد مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں رہائش پذیر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور نئے خریداروں کو بے ضابطگیوں سے بچانا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
غیرقانونی ہائوسنگ سکیموں کی تفصیلات ویب سائٹس پر جاری کرنے کا حکم
قبضہ مافیا کیخلاف کریک ڈاﺅن، پنجاب میں 450 ارب کی ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی واگزار
نوٹی فکیشن کے مطابق ہاؤسنگ سکیموں کے اختیارات کمیشن کے حوالے کر دیے گئے ہیں، جن سوسائٹیوں میں قبرستاں کو جگہ نہیں چھوڑی گئی یا قبرستان کی جگہ پر بھی تعمیرات کر دی گئیں، وہاں قبرستان کی بحالی کا اختیار بھی مزکورہ کمیشن کے پاس ہو گا۔
کمیشن ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کو پانچ کلومیٹر کی حدود میں قبرستان تعمیر کرنے کا پابند بنائے گا، اور وہ جن کے رہائشی سوسائٹیوں میں ہسپتالوں اور مسجدوں کیلئے جگہ نہیں چھوڑی گئی، انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح کمیشن ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں کھیلوں کے میدان، پارک اور گرین بیلٹس بنانے کی ہدایت بھی کرے گا اور وہ ڈویلپرز جو ان قوانین کی خلاف ورزی کریں گے، انہیں کمیشن کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔
کمیشن کے فیصلے پرانی اینٹی ریگولیشن ہاؤسنگ سکیموں پر بھی لاگو ہوں گے تاہم مفاہمتی کمیشن کے فعال ہونے کے بعد تشکیل دی گئی سوسائٹیوں کی ذمہ داری متعلقہ محکموں کی ہو گی۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) میں ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی دارالحکومت میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں کسی حد تک قوانین کی پیروی کرتی ہیں لیکن دیگر شہروں میں مکمل طور پر لاقانونیت کا راج ہے۔
“حتیٰ کہ کئی ہاؤسنگ سکیمیں منظوری لیے بغیر باؤنڈری وال تعمیر کرکے پلاٹ اور گھر فروخت کرنا شروع کر دیتی ہیں، یہ مسئلہ اسی وقت دور ہو سکتا ہے جب کمیشن مکمل طور پر نگرانی کرے، تاہم قوانین پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اس کاروبار میں زیادہ تر افراد بااثر ہیں اور کئی کا تعلق مافیاز سے ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر قوانین ان افراد پر لاگو کیے جاتے ہیں تو وہ عدالت چلے جاتے ہیں اور عدالتی کیسز کی آڑ میں مسلسل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔