اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی تجویز پر آئندہ مالی سال سے انکم ٹیکس بریکٹس کو 11 سے کم کرکے 5 بریکٹس تک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب تک پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ پانچ فیصد سے لے کر 35 فیصد تک ٹیکس مختلف سلیبس کی صورت میں ادا کر رہا ہے، چھ لاکھ روپے سے زائد کمانے والے افراد پانچ فیصد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ سات کروڑ 50 لاکھ کمانے والوں پر 35 فیصد تک انکم ٹیکس لاگو ہے۔
دوسری جانب غیر تنخواہ دار طبقے کی آمدن پر آٹھ سلیبس کی صورت میں انکم ٹیکس لوگو ہے جو چار لاکھ روپے سے زائد کمانے والے پر پانچ فیصد عائد ہوتا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ اس کی شرح بھی 35 فیصد تک ہے۔
میمورنڈم آف اکنامکس اینڈ فنانشل پالیسیز (MEFP) میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو ٹیکس کی موجودہ شرح میں کمی کرکے انکم ٹیکس بریکٹس کی تعداد 11 سے کم کرکے پانچ کر دینی چاہیے جبکہ سلیبس کا سائز بھی کم کر دینا چاہیے تاکہ ٹیکس کا نظام مزید سادہ اور آسان ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیے:
ایف بی آر نے 9 ماہ میں مقررہ ہدف سے 100 ارب روپے زائد ٹیکس جمع کر لیا
کئی سینئر افسروں کو چھوڑ کر عاصم احمد کو نیا چیئرمین ایف بی آر تعینات کر دیا گیا
میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ معذوروں، بزرگ شہریوں اور زکوٰۃ کے مستحقین کو چھوڑ کر باقی تمام افراد (تاجر و صنعتکار وغیرہ) کیلئے ٹیکس کریڈٹس اور دیگر مراعات میں 50 فیصد کمی لائی جائے۔
اس کے علاوہ چھوٹے ٹیکس دہندگان کی سہولت، معیشت کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس کے دائرہ میں وسعت پیدا کرنے کیلئے ایف بی آر خاص لائحہ عمل متعارف کرائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ برآمدی مصنوعات اور مشینری کے علاوہ تمام زیرو ریٹڈ مصنوعات ختم کی جائیں، برآمدی مصنوعات اور مشینری کو بھی سٹینڈرڈ سیلز ٹیکس ریٹ کے تحت لایا جائے۔
جنرل سیلر ٹیکس میں اصلاحات سے ناصرف اس کا دائرہ کار وسیع ہو گا بلکہ وفاق اور صوبوں کے مابین اس ٹیکس کے حوالے سے ہم آہنگی بھی بڑھے گی، خاص طور پر اصلاحات کے نتیجے میں نان سٹینڈرڈ پریفرینشل ریٹس (NPR) اور مختلف قسم کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ ہو گا اور تمام مصنوعات پر ایک ہی جیسا 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لاگو ہو گا۔
اس کے ساتھ ورلڈ بینک کی معاونت سے تمام صوبوں میں سروس سیلز ٹیکس بھی ایک جیسا کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ایف بی آر کی جانب سے اس اصلاحاتی عمل کو رواں سال جون کے اختتام تک مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔
علاوہ ازیں ایف بی آر شیڈول 8 کے تحت کم کیے گئے ریٹس اور شیڈول 6 کے تحت دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کرے گا تاہم بنیادی اشیائے خورونوش، ادویات اور تعلیم و صحت سے متعلق مصنوعات کو استثنیٰ ہو گا، باقی تمام مصنوعات کو سٹینڈرڈ ٹیکس ریٹ کے تحت لایا جائے گا۔ موبائل فونز سے متعلق بھی شیڈول 9 کو ختم کرکے ایک سٹینڈرڈ ٹیکس ریٹ متعارف کرایا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق ان اصلاحات کے نتیجے میں ٹیکس کا دائرہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے، ٓآئندہ مالی سال کیلئے آئی ایم ایف نے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5963 ارب روپے مقرر کیا ہے جو رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ ہدف سے بھی 1272 ارب روپے زیادہ ہے، رواں سال ہدف 4963 ارب روپے سے کم کرکے 4691 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے مالی سال 2023ء کیلئے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 6941 ارب روپے، مالی سال 2024ء کا ٹیکس ہدف 7824 ارب روپے، مالی سال 2025ء کا ہدف 8752 ارب روپے اور مالی سال 2026ء کا ٹیکس ہدف 9796 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی 2020ء سے مارچ 2021ء) تک ایف بی آر کی جانب سے 3394 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے اور حکام رواں سال کا ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے باقی ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔