اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے پنجاب حکومت کے چینی کی قیمت مقرر کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ فیصلہ پنجاب سے دیگر صوبوں کو چینی منتقلی کے علاوہ دیگر نتائج کا باعث بھی بنے گا۔
کمیشن نے اپنے پالیسی نوٹ میں حکومت کو فری ٹریڈ کو فروغ دینے کے لیے شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے، مسابقت بڑھانے اور مقامی سطح پر رسد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے قیمتوں کے اشاریے تمام سٹیک ہولڈرز کو مؤثر طریقے سے پہنچائے جا سکیں۔
ذرائع کے مطابق سی سی پی کی جانب سے پالیسی نوٹ اس ضمن میں جاری کیا گیا کیونکہ پنجاب حکومت نے چینی کی ریٹیل قیمت 85 روپے فی کلوگرام مقرر کرنے کا سرکلر جاری کیا تھا۔
سی سی پی کا کہنا ہے کہ صرف پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں چینی کی قیمت مقرر کی گئی ہے، اس کا فوری اثر یہ ہو سکتا ہے کہ کہ چینی دیگر صوبوں میں منتقل کر دی جائے گی جہاں کسی قسم کے نرخ مقرر نہیں کیے گئے اور اس سے مارکیٹ میں چینی کی قیمت آسمان پر پہنچ جائے گی۔
کمیشن نے کہا ہے کہ قیمتوں پر کنٹرول سے سپلائرز کو ذخیرہ اندوزی کی شہ ملے گی، یا خاص کر رمضان میں صارفین قیمتیں بڑھنے کے ڈر سے زیادہ چینی خرید سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے لہٰذا چینی مہنگی ہونے کا خدشہ ہو گا۔
تاہم سی سی پی کے مطابق شوگر ملز کی طرف سے چینی کی ذخیرہ اندوزی روکنے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے شوگر آرڈر 2021ء کا نفاذ ایک درست قدم ہے۔
پالیسی نوٹ میں کہا گیا کہ چینی کی پیداواری قیمت ہر شوگر مل کیلئے ایک جیسی نہیں ہوتی، ہو سکتا ہے کہ کسی شوگر مل نے مہنگے داموں گنا خریدا ہو، ایسے میں قیمت کو فکس کر دینے سے شوگر ملز پر دبائو بڑھے گا۔
حکام کے مطابق چینی کی پیداوار میں گنے کی قیمت خرید ایک بنیادی جزو ہے۔ شوگر ملز سرکاری مقرر کردہ امدادی قیمت پر گنا خریدنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو سکتی ہیں اور کسانوں کو کم سے کم قیمت پر گنا فروخت کرنے کیلئے دباؤ بھی ڈالتی ہیں جس سے کسان گنے کی بجائے کوئی اور فصل کاشت پر مجبور ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ عمل مستقبل میں مارکیٹ میں غیرضروری بحران اور پیداوار میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
سی سی پی کے مطابق ایسی صورت میں حکومت کو چینی درآمد کرنا پڑے گی اور چینی کے لیے قیمت کی ادائیگی کی صورت میں درآمدی بل بڑھے گا۔
سی سی پی کا کہنا ہے کہ اگر مارکیٹ فری انٹری اور ایگزٹ کے ساتھ ڈی ریگولیٹ کر دی جاتی ہے تو بار بار مداخلت کی ضرورت نہیں پڑے گی، آزاد مسابقتی مارکیٹ کے ماحول میں ہر کرشنگ سیزن پر قانون نافذ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔
پالیسی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شوگر سیکٹر میں زیادہ تر مسائل ضرورت سے زیادہ قواعد کے نفاذ اور عدم مسابقت کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ قیمتیں مقرر کرنے سے رمضان میں متوسط طبقے کو فائدہ کی بجائے صنعتی صارفین کو فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ صنعتی صارفین مجموعی کھپت کا 70 فیصد کے قریب بناتے ہیں۔
سی سی پی نے پالیسی سازوں پر ملکی شوگر انڈسٹری کو ٹیرف اور سبسڈیز کے ذریعے تحفظ دینے کا الزام بھی عائد کیا ہے، سی سی پی کے مطابق انہی مراعات کی وجہ سے شوگر سیکٹر چینی کے علاوہ دیگر مصنوعات بشمول ایتھانول کی پیداوار میں عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے، حالانکہ اس طلب چینی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
سی سی پی نے تجویز دی ہے کہ صوبائی حکومت اپنی زرعی پالیسی کو موثر بنائے اور اس شعبے کی ترقی کیلئے تحقیق پر توجہ دے۔