کراچی: عسکری بینک کی مالک فوجی فائونڈیشن کی جانب سے سلک بینک کو خریدنے میں عدم دلچسپی کے بعد حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل) نئے خریدار کے طور پر سامنے آیا ہے۔
حبیب بینک کی جانب سے سلک بینک کی انتظامیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بینک کے کنزیومر پورٹ فولیو (کریڈٹ کارڈز کی تعداد، موجودہ مالیاتی کیفیت اور قرضوں کی تفصیلات وغیرہ) کے حصول کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے۔
سلک بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے اس کی منظوری 7 اپریل 2021ء کو دی گئی ہے۔
اس سے قبل 28 جنوری 2021ء کو فوجی فائونڈیشن نے سلک بینک کے اکثریتی شئیرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی جس کے بعد سلک بینک کی جانب سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو اس حوالے سے ایک نوٹس کے ذریعے آگاہ بھی کیا گیا تھا۔
تاہم 8 اپریل 2021ء کو سٹاک ایکسچینج کے نام بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ فوجی فائونڈیشن سلک بینک کی خریداری میں مزید دلچسپی نہیں رکھتی اور اس حوالے سے جاری عمل کو معطل سمجھا جائے۔
سلک بینک خریدنا چاہیے یا نہیں؟
یہ بات درست ہے کہ سلک بینک مالیاتی مشکلات سے دوچارہے، گزشتہ دس سالوں سے بینک کا مارکیٹ شئیر محض ایک فیصد رہا ہے، گو کہ 2014ء سے 2019ء کے دوران سلک بینک کے ڈپازٹس کی شرح نمو 16.7 فیصد رہی جو بینکنگ انڈسٹری کے ڈپازٹس کی شرح نمو 11.9 فیصد سے زیادہ ہے تاہم 2019ء میں سلک بینک کے مجموعی ڈپازٹس 148 ارب روپے تک ہی محدود رہے۔
گزشتہ سال 2020ء کے دوران وبا کے باوجود سلک بینک کے قرض دینے کی شرح میں نمایاں کمی آئی، حال ہی میں سلک بینک نے اعلان کیا ہے کہ ایچ بی ایل اس کا کنزیومر پورٹ فولیو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے، سال 2020ء کے دوران سلک بینک کے کنزیومر اثاثوں کی مالیت 121 ارب روپے رہی جبکہ تنہا اس شعبے نے بینک کے منافع میں 1.09 ارب روپے حصہ ڈالا، اس شعبے کی ایچ بی ایل کو فروخت ایچ بی ایل کے کنزیومر سیکٹر کو مزید منافع بخش بنا دے گی۔
ایک اور مسئلہ بینک کے گزشتہ دس سالوں کے ریٹرن آن ایکویٹی کے اعدادوشمار ہیں، عمومی طور پر 10 فیصد سے زیادہ ریٹرن آن ایکویٹی ٹھیک ہی سمجھا جاتا ہے لیکن سلک بینک کے تناظر میں 2013ء کو چھوڑ کر اس کی ریٹرن آن ایکویٹی کی شرح بدترین رہی ہے بلکہ 2009، 2010، 2012 اور 2015ء کے دوران تو منفی بھی رہی جس کا مطلب ہے کہ بینک کی نیٹ انکم بھی مذکورہ سالوں کے دوران منفی رہی۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے سینئر ایکویٹی اینالسٹ فیضان خان کہتے ہیں کہ “سلک بینک مسلسل خسارے میں چل رہا ہے، اس لیے ایکوزیشن اس کی ویلیو بک کیلئے بہتر ہی ہوتی کیونکہ اس کے کم از کم ڈپازٹس کی شرح بھی مطلوبہ سطح سے کم ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک کے حالات کچھ اچھے نہیں۔”
سلک بینک کس کی ملکیت ہے؟
بینک کی دسمبر 2019ء کی سالانہ مالیاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس کے 62.39 فیصد شئیرز ایسوسی ایٹڈ کمپنیوں کے پاس ہیں، جیسے کہ عارف حبیب کارپوریشن 28.23 فیصد، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین 11.5 فیصد، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن 7.74 فیصد، ذوالقرنین نواز چٹھہ (گورمے فوڈز کے مالک) 7.47 فیصد، نومورا یورپین انویسٹمنٹ لمیٹڈ 3.93 فیصد اور بینک آف مسقط 3.48 فیصد شئیرز کے مالک ہیں۔
گزشتہ عشرے کے زیادہ تر عرصے میں سلک بینک کی سربراہی عظمت ترین کے ہاتھ رہی ہے جو خود بھی اس بینک کے نمایاں سرمایہ کار ہیں جبکہ سابق وزیر خزانہ اور سلک بینک کے شئیر ہولڈر شوکت ترین کے چھوٹے بھائی ہیں۔