سپلائر کمپنیوں کو سات ارب کی اضافی ادائیگیاں، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کیخلاف تحقیقات کا آغاز

619

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے پورٹ چارجز کے نام پر غیرملکی ایل این جی کمپنیوں کو سات ارب روپے کی اضافی ادائیگیوں پر پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کے خلاف انکوائری کا آغاز کر دیا۔

پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کی جانب سے سات ارب روپے کی یہ ادائیگیاں پانچ سال کے عرصے میں کی گئیں جو  پٹرولیم ڈویژن کے علم یں نومبر 2020ء میں آئیں اور اس نے معاملے کی انکوائری کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔

ذرائع کے مطابق جوائنٹ سیکرٹری وزارتِ توانائی ساجد محمود قاضی کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی نے ایک برطانوی فرم کی مدد سے اضافی ادائیگیوں کی تصدیق کی ہے اور پی ایل ایل کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر عدنان گیلانی اور سابق چیف فنانشل آفیسر ندیم نذیر کو غیرضروری ادائیگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن نے 31 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ نیب راولپنڈی کو بھجوا دی ہے تاہم ذرائع نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ ساجد قاضی، جو پی ایس او بورڈ میں ہیں اور معاملے کو شروع سے جانتے ہیں، نے مبینہ طور پر رپورٹ میں اپنی نااہلی اور وزارت توانائی کی کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ساجد قاضی کا بورڈ کے رکن کے طور پر مفادات کے ٹکرائو کا معاملہ بنتا ہے، کیونکہ وہ جس بورڈ کا حصہ ہیں اسی نے پانچ سال تک اضافی ادائیگیاں کیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) سے کسی کو بھی اس مسئلے میں شامل نہیں کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق پی ایل ایل نے 3 نومبر 2020ء کو ایک خط کے ذریعے وزارتِ توانائی کو اضافی ادائیگیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا جو ایل این جی خریداری کے معاہدوں کے خلاف تھیں۔

پی ایل ایل نے کہا کہ اس کی انتظامیہ نے اضافی ادائیگیوں کا مسئلہ سپلائرز کے ساتھ نومبر 2018ء میں اٹھایا تھا تاہم ایک ٹرم سپلائر نے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کیا جبکہ دوسری سپلائی کمپنی نے جواب ہی نہیں دیا۔

پرافٹ اردو کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دو ٹرم سپلائرز کو 80 فیصد سے زائد ادائیگیاں کی گئیں، اس وقت کی پی ایل ایل انتظامیہ کی جانب سے معاملے کے حل کیلئے کمیٹی قائم کی گئی جس نے2019ء میں سپاٹ سپلائرز کو زائد ادائیگی روکنے کی تجویز دی تھی۔

مذکورہ کمیٹی نے اچھے تعلقات برقرار رکھنے کیلئے سپاٹ اور ٹرم کی بنیاد پر مذکورہ دونوں ٹرم سپلائرز کو سپلائی کے تحت زائد ادائیگیاں جاری رکھنے کی سفارش کی تھی۔

اسی طرح انتظامیہ کو معاہدے کے تحت زائد ادائیگیوں کے بارے میں بتایا گیا جو ڈپازٹس روکنے اور کارروائی کرنے پر متفق ہوئی۔ تاہم ادائیگیاں روکنے کی بجائے اس وقت کے ایم ڈی عدنان گیلانی اور سی ایف او ندیم نذیر ایل این جی سپلائرز اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے رابطے میں رہے۔

اس کے علاوہ پی ایل ایل کے ایل این جی ٹھیکے میں منظور شدہ پورٹ چارجز پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ لیکن اگست 2020ء تک برطانوی فرم سے رائے طلب نہیں کی گئی۔

عدنان گیلانی سے جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ پی ایل ایل تھی جس نے اس معاملے کو اپنے ماتحت سرانجام دیا، ’’میں نے اس مسئلے کی نشاندہی کی اور جامع تفتیش کے بعد ایک ایکشن پلان تیار کیا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سی ایف او کی طرف سے سربراہی کمیٹی  تمام تر مجاز ادائیگی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ “جس شخص نے اس مسئلے کی نشاندہی کی اور پاکستان کے لیے اربوں روپے بچانے کا حکم دیا اسے ہی حکومت کی نااہلی کو چھپانے کے لیے تنگ کیا جا رہا ہے۔”

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here