اسلام آباد: وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے نیویارک میں واقع روز ویلٹ ہوٹل کے حوالے سے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ اس ہوٹل کے مالکانہ حقوق اب بھی پی آئی اے کی ذیلی کمپنی کے پاس ہیں۔
وفاقی وزیر ہوابازی کو قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں روز ویلٹ ہوٹل کی ملکیت کے حوالے سے اس لیے بتانا پڑا ہے کیونکہ کچھ وٹس ایپ گروپس پر چند روز سے ایک میسج اور وکی پیڈیا کا سکرین شاٹ زیر گردش ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کو ٹیتھیان کاپر کمپنی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ٹیتھیان کاپر وہی کمپنی ہے جس نے ریکوڈک کیس میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کای تھا اور بین الاقوامی عدالت میں پاکستان پر 5.97 ارب ڈالر جرمانہ عائد کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: قرضہ یا قبضہ، رoزویلٹ ہوٹل کیوں بند ہوا؟ نیب تحقیقات کرے گا
مذکورہ کمپنی نے اس جرمانے کی ادائیگی کی مد میں پی آئی اے کے دو ہوٹلوں روز ویلٹ (نیویارک) اور سکرائب (پیرس) کی ملکیت کے حصول کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔
تاہم وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں بتایا ہے کہ روز ویلٹ ہوٹل تاحال پی آئی اے کی ذیلی کمپنی کی ملکیت ہے اور اس کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے تمام خبریں جھوٹی ہیں۔
قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران رکن اسمبلی طاہرہ اورنگزیب کے سوال پر وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے ایوان کو بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث نیویارک کے علاقے مین ہٹن کے 80 فیصد ہوٹل بند ہو گئے تھے اور ان میں روزویلٹ ہوٹل بھی شامل ہے۔
رکن اسمبلی جے پرکاش کے سوال پر وفاقی وزیر غلام سرور خان نے بتایا کہ ٹورنٹو کیلئے پی آئی اے کی پروازیں پانچ سے کم کر کے دو کر دی گئی ہیں اور ایسا کوویڈ 19 کی وجہ سے کیا گیا، جیسے ہی مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، پروازوں کی تعداد بھی بڑھا دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عمومی طور پر پروازوں اور آپریشنز میں 50 فیصد کمی آئی ہے، جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، اس میں اضافہ کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی ملازمت سے دستبرداری کی رضاکارانہ سکیم پر عمل درآمد جاری ہے۔ رکن اسمبلی ناز بلوچ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایک جہاز پر اوسطاََ ملازمین کی تعداد 250 ہے، پی ائی اے میں 500 ملازمین فی جہاز کی اوسط سے بھرتی ہیں، ان لوگوں کیلئے ہی رضاکارانہ علیحدگی کی سکیم کی منظوری دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو ہزار ملازمین نے اس سکیم میں شامل ہونے کی درخواستیں دی ہیں، اب تک 12 سو ملازمین کو ادائیگی کی گئی ہے جبکہ چھ سو ملازمین کو ادائیگی پر کام ہو رہا ہے، اس سکیم کیلئے 12 ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی جس میں 9 ارب جاری کئے گئے ہیں۔
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ پی آئی اے کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں، پائلٹوں کے حوالہ سے اپنے بیان پر قائم ہوں، پی آئی اے میں 82 پائلٹس نے ناجائز ذرائع سے لائسنس حاصل کئے تھے، یہ بات ثابت ہو چکی ہے، 762 ملازمین جعلی ڈگریوں پر بھرتی کئے گئے تھے۔
غلام سرورخان نے ایک سوال پر ایوان کو بتایا کہ پی آئی اے کا ہیڈکوارٹرز تبدیل نہیں کیا جا رہا، تکنیکی ہیڈکوارٹرز کراچی میں ہی ہو گا تاہم آپریشنز کی سمت کراچی سے شمال کی طرف جا رہی ہے کیونکہ فضائی ٹریفک نارتھ یا اسلام آباد کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اس حوالہ سے بعض افسران کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹرشازیہ اسلم کے سوال پر وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بتایا کہ پی آئی اے کا کوئی اثاثہ بیچا گیا اور نہ ہی ایسا پروگرام ہے، اصفہانی ہینگر کو آﺅٹ سورس یا فروخت نہیں کیا جا رہا۔ ادارے میں 400 ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہمیں ورثہ میں ملا جو روٹس فائدے میں نہیں ہیں انہیں بند کر دیا جائے گا۔
بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان ائیرپورٹس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان روٹ کی بندش بھی امن و امان اور تجارتی موزونیت کی صورت حال کی وجہ سے تھی۔ ژوب اور ڈی آئی خان ایئرپورٹ کو اَپ گریڈ کرنے اور ڈومیسٹک آپریشنز کی بحالی پر کل اجلاس بھی ہوا تھا۔ 17 سال کے بعد سیدو شریف سوات کیلئے آپریشنز دوبارہ شروع کر دیئے گئے ہیں۔ جو بھی ائیرپورٹ تجارتی طور پر موزوں نہیں ہوں اسے بند کرنے کی پالیسی ہے، حیدرآباد ائیرپورٹ پر آپریشنز بھی اس لئے بند کر دیے گئے۔