پاکستان کا عالمی قرضوں پر اک بار پھر نظرثانی کا مطالبہ

یہ امر باعث تشویش ہے کہ وبا کے باوجود ترقی پذیر ممالک سے گزشتہ سال 178 ارب ڈالر ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہوئے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم

575

نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی طرف سے قرضوں کی پائیدار طور پر ادائیگی یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ عالمی سطح پر قرضوں کے ڈھانچے پر نظر ثانی کی جائے اور اس ضمن میں پبلک گلوبل ریٹنگ ایجنسی کے قیام سمیت کئی دیگر تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے ڈھانچے اور دیوالیہ پن کے حوالہ سے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو دیوالیہ پن سے بچانے کےلئے افریقہ کے لئے اقتصادی کمیشن کی پائیدار بنیادوں پر ادارہ کے قیام کی تجویز بہت اہم اقدام ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ سرمایہ تک رسائی میں وسعت پیدا ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے:

آئی ایم ایف کی پاکستان کیلئے 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری  

کووڈ۔19: سال 2020ء میں عالمی قرضوں کا حجم 281 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا

منیر اکرم نے کہا کہ اِس وقت عمومی اتفاق رائے ہے کہ کووڈ-19 کے بحران سے نکلنا پائیدار ترقی کے ماڈل کےلئے تبدیلی لانے کا موقع ہے اور اس تبدیلی کےلئے ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلیوں کی روک تھام کےلئے سالانہ 100 ارب ڈالر دینے کا وعدہ پورا کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ ترقی پذیر ممالک سے گزشتہ سال 178 ارب ڈالر ترقی یافتہ ممالک میں گئے اور مجھے امید ہے کہ اس ورچوئل اجلاس میں ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل کی منتقلی روکنے اور یہ وسائل دوبارہ واپس ترقی پذیر ممالک کے حوالے کرنے پر غور وخوض کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اقتصادی و سماجی کونسل کے ترقی کےلئے فنانسنگ فورم کا اعلیٰ سطحی اجلاس اپریل میں منعقد ہو گا جبکہ عالمی اقتصادی کونسل کا اجلاس 16 اپریل کو ہو گا جس میں کووڈ ویکسین کی عالمی سطح پر مساوی بنیادوں پر دستیابی اور تقسیم پر بھی زور دیا جائے گا۔

پاکستانی مندوب نے آئی ایم ایف کی طرف سے جون تک 650 ارب ڈالر نئے ایس ڈی آر کےلئے مختص کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف کے پاس ترقی پذیر ممالک کی امداد کےلئے خاطر خواہ فنڈز دستیاب ہو جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here