پاکستان نے افغانستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت کھو دی

پاک افغان تجارتی حجم 50 فیصد کم ہو کر دو ارب ڈالر سالانہ سے ایک ارب ڈالر پر آ گیا، ایران نے پاکستان کی جگہ لے لی

1141

پشاور: پاک افغان دوطرفہ تجارت گزشتہ کئی سالوں سے پابندیوں اور رکاوٹوں کا شکار ہے جس وجہ سے پاکستان نے افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہونے کی حیثیت کھو دی ہے۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی تجارت کے حجم میں 50 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور یہ سالانہ اڑھائی ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ اس وقت افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار پاکستان نہیں بلکہ ایران بن چکا ہے جبکہ بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سینئر نائب صدر پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس (پی اے جے سی) ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ پاک افغان دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے طورخم سرحد 2019ء سے کم و بیش روزانہ کی بنیاد پر کھولی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود دوطرفہ تجارت میں کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہو پائی۔

یہ بھی پڑھیے:

’پاک افغان تجارت پانچ ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی‘

حکومت سے پاک افغان کارگو ٹرین پروجیکٹ جلد شروع کرنے کا مطالبہ

ضیاء سرحدی نے بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں کے دوران 33 ارب ڈالر مالیت کا سامان لے کر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 8 لاکھ 32 ہزار کنٹینرز پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے لیکن پھر بھی ٹرانزٹ ٹریڈ میں 30 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے کیونکہ یہ تجارت زیادہ تر ایران، ازبکستان اور تاجکستان کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے افغان تاجر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کراچی بندرگاہ پر سامان کی کلئیرنس کے عمل کو تیز کیا جائے لیکن اس پر غور تک نہیں کیا گیا، اگر افغان تاجروں کا مطالبہ مان لیا جائے تو کراچی بندرگاہ سے سالانہ شپمنٹس میں 75 ہزار کنٹینرز کا اضافہ ہو سکتا ہے اور افغانستان کے ساتھ بھی دوطرفہ تجارتی حجم پانچ ارب روپے تک بڑھ سکتا ہے۔

یہ بھی مدِ نظر رہے کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ 2010ء کی مدت 11 فروری 2021ء کو ختم ہو گئی تھی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی کابینہ نے صدارتی آرڈی نینس کا سہارا لے کر اس کی مدت میں تین ماہ توسیع کر دی، یہ توسیع بنیادی طور پر اس لیے کرنا پڑی کیونکہ دونوں ممالک کے مابین ایگریمنٹ کے حوالے سے ڈیڈلاک برقرار ہے۔

دوسری جانب پاکستان افغانستان کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ فری ٹریڈ چاہتا ہے لیکن اس ضمن میں ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا۔

یاد رہے کہ افغانستان نے واہگہ بارڈر سے بھارت تک رسائی کی خواہش ظاہر کی تھی جبکہ پاکستان نے اس حوالے سے اپنا اصولی مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ دوطرفہ تجارتی کوریڈور معاہدہ صرف اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہے اور کوئی تیسرا فریق اس میں شامل نہیں ہو سکتا اور پاکستان نئی دہلی کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو مدِنظر رکھتے ہوئے افغانستان کو واہگہ کے ذریعے دوطرفہ تجارت کی سہولت نہیں دے سکتا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here